طالبان کی حکومت، افغان خواتین کے خدشات کس حد تک درست ہیں؟
خالدہ نیاز
افغانستان میں اگر ایک جانب عام لوگ طالبان کے اقتدار سے ڈرے ہوئے ہیں اور ملک سے کوچ کرجانے کے لیے کابل ایئرپورٹ پر ہزاروں لوگ جمع ہیں تو دوسری جانب افغان خواتین بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ افغان خواتین کا کہنا ہے کہ طالبان کے آجانے سے انکے بنیادی حقوق سلب ہوکر رہ جائیں گے کیونکہ پچھلی بار بھی جب طالبان اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے خواتین کو گھروں تک محدود کردیا تھا۔ کابل میں رہائش پذیر نازش بھی ان خواتین میں سے ایک ہے جو اس وقت شدید کرب سے گزر رہی ہے۔
ایک بچی کی ماں زینت کا کہنا ہے کہ جب سے طالبان افغانستان پرقابض ہوئے ہیں اسی وقت سے وہ بے چینی کا شکار ہوچکی ہے اور انکے دل میں بہت زیادہ خوف ہے۔ ‘ پچھلے چار پانچ دن سے جب ہم یہ خبریں سن رہے ہیں کہ طالبان نے کئی علاقوں اور اب پورے ملک پر قبضہ کرلیا ہے تو تب سے ہم گھروں میں محصور ہوچکی ہیں اور بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے’
طالبان کبھی بھی خواتین کو حقوق نہیں دیں گے
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے 28 سالہ زینت نے کہا کہ افغانستان میں جب سابقہ صدر اشرف غنی کی حکومت تھی تو اس وقت خواتین بغیر کسی خوف کے تعلیمی اداروں، شاپنگ مالز اور باقی جگہوں پرجایا کرتی تھی لیکن اب جبکہ طالبان آچکے ہیں تو خواتین سہم گئی ہیں، اب ان کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہے کہ وہ گھر سے باہر قدم بھی رکھے کیونکہ انکے دل میں طالبان کا خوف اور ڈر موجود ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ طالبان کبھی بھی خواتین کو وہ حقوق نہیں دیں گے جو انکا بنیادی حق ہے۔
زینت نے کہا کہ اس سے پہلے بھی افغانستان میں طالبان حکومت کرچکے ہیں جس میں تمام لوگوں خصوصا خواتین کو بہت مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ انکو اجازت نہیں تھی کہ وہ تعلیم حاصل کریں، اس کے علاوہ لوگوں میں طالبان کے حوالے سے اس لئے بھی خوف ہے کہ پہلے جب وہ اقتدار میں آئے تھے تو غربت بہت بڑھ گئی تھی کیونکہ سارے ممالک نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیئے تھے۔
اگرچہ زینت لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے فکرمند ہے تاہم طالبان کا کہنا ہے افغانستان میں نئی حکومت میں خواتین کوحجاب کےساتھ کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنےکی اجازت ہوگی۔
خواتین کوسیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی: طالبان
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے غیرملکی خبر رساں ادارے کو کچھ روز قبل انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ نئی حکومت میں خواتین کوسیاست میں حصہ لینےکی اجازت ہوگی اور خواتین کوگھر سے نکلنے کیلئے مرد سربراہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
زینت نے کہا کہ ‘ جب یہاں اشرف غنی کی حکومت تھی تو خواتین کو ہر طرح کی آزادی حاصل تھی، وہ بازار جاسکتی تھی، سکول جاسکتی تھی لیکن اب خواتین پریشان ہوگئی ہیں کہ وہ کس طرح اپنی زندگی جئے گی کیسے آگے جائیں گی’
سابق صدر اشرف غنی کے مستعفی ہونے اور طالبان کے قابض ہوجانے کے بعد انسانی حقوق کے علمبردار اور تعلیم کے لیے کام کرنے والی شخصیات نے افغان خواتین کے بنیادی حقوق اور تعلیم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
طالبان کے قاتلانہ حملے میں زندہ بچ جانے والی اور دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی بھی طالبان کے قبضے کے بعد افغانی خواتین کے حوالے سے فکرمند ہے اور انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔
افغانستان حالات: ملالہ کا وزیراعظم عمران خان کو خط
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری سے گفتگو کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو افغانستان میں خواتین کی تعلیم سے متعلق خط لکھا ہے۔
اس سے قبل ملالہ یوسفزئی نے اس سے قبل اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ طالبان کا افغانستان پر کنٹرول کو ہم مکمل صدمے سے دیکھ رہے ہیں۔ میں خواتین، اقلیتوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے بارے میں بہت پریشان ہوں۔ عالمی، علاقائی اور مقامی طاقتوں کو فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ افغانستان میں فوری انسانی امداد فراہم کرنی چاہیے اور مہاجرین اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔
طالبان اس سے قبل نوے کی دہائی میں بھی اقتدار میں رہ چکے ہیں۔ طالبان نے 1996 سے لے کر 2001 تک افغانستان پرحکومت کی تھی اور ایک بار پھر وہ اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرلے۔
طالبان کے آجانے سے افغانستان کے حالات ایک بار پھر بدل جائیں گے
قاندی صافی جو پچھلے کئی سالوں سے پشاور میں رہائش پذیر ہے کا کہنا ہے کہ طالبان کے آجانے سے افغانستان کے حالات ایک بار پھر بدل جائیں گے، سکول بند ہوجائیں گے، دیواروں سے خواتین کی تصاویر ہٹ جائیں گی اور اس کے ساتھ ایسی خواتین گھروں میں بیٹھ جائیں گی جو کسی نہ کس لحاظ سے نوکری کررہی تھی اور اپنے گھر والوں کو سنبھال رہی تھی۔
‘ میری اپنی بہن نوکری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہے وہ کل مجھ سے کہہ رہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے نوکری چلی گئی ہے اب وہ اپنے بچوں کو کہاں سے کھلائیں گی اس کے خاوند کا کوئی کام نہیں ہے’ قاندنی صافی نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ اب طالبان اس لئے خاموش ہیں کیونکہ ساری دنیا کی نظریں ان پر ہے لیکن آہستہ آہستہ طالبان پھر وہی خون بہانا شروع کریں گے پھر عام لوگوں پر ویسا ظلم کریں گے جس طرح وہ پہلے کرتے تھے، لوگ ویسے تو نہیں ڈر رہے انکو پتہ ہے کہ انکے ساتھ طالبان بہت برا سلوک کرنے والے ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان سے نکل جائے تاکہ امن کے ساتھ رہ سکیں۔
بے یقینی کی صورتحال اور امید کی کرن
قاندی صافی نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان میں سارے ادارے بند ہیں لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، خاص طور پر زیادہ تر صحافیوں نے رات کابل ایئر پورٹ میں گزاری کیونکہ انکے دل میں ڈر ہے کہ ایک وقت میں وہ سچ کا ساتھ دے چکے ہیں۔
قاندی صافی نے کہا کہ اگرچہ انکے بچے پاکستان میں ہیں تاہم انکے بہت سے پیارے افغانستان میں ہے اور انکے دل میں جو درد ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی کیونکہ اب وہ طالبان کو برداشت کریں گے جن کی اولاد کو طالبان نے مار ڈالا ہے۔
اس ایک بات پر زینت اور قاندی صافی پرُامید ہے کہ پہلے جب طالبان کی حکومت تھی تو تب حالات ایسے نہیں تھے لیکن اب دنیا کا منظر نامہ بدل چکا ہے اور عالمی طاقتوں سمیت تمام ممالک انسانی حقوق پرسمجھوتہ نہیں کرتے اور امریکہ پہلے وعدے کرچکا ہے کہ اگر طالبان نے انسانی حقوق کا خیال نہ رکھا تو انکو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔