افغانستان کی بدلتی صورتحال اور تشویش میں مبتلا نیٹو ممالک
عبدالستار
آئے روز افغانستان کی بدلتی صورتحال نے نیٹو ممالک کو، جو بیس سال تک افغانستان کی افواج اور اداروں کی تیاری پر ہزاروں ارب ڈالرز خرچ کر چکے ہیں، تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ نیٹو اور امریکہ کی افواج نے انخلا تک تین لاکھ افغان فوج کو جدید تربیت اور جدید اسلحہ دے کر چھوڑا لیکن انخلا کے بعد طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی میں طالبان آئے روز نئے اضلاع پر قبضوں کے اعلانات کرر ہے ہیں۔ جمعرات کی شب طالبان نے دسویں صوبے غزنی پر قبضہ کرنے کی تصدیق کی جو کابل اور قندھار کے درمیان اہم شاہرہ پر واقع ہے۔
افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر افغان صدر اشرف غنی نے آرمی چیف عبدالولی احمد زئی کو برطرف کر کے ان کی جگہ ہیبت اللہ علی زئی کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا تاکہ وہ نئی حکمت عملی کے ساتھ حالات کو قابو کر سکیں۔ گزشتہ دن امریکی صدر جو بائیڈن نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ انہیں افغانستان سے فوج واپس بلانے پر کوئی افسوس نہیں ہے، ایک کھرب ڈالر افغانستان میں خرچ کئے اور ساڑھے تین لاکھ افغان فوجیوں کو جدید تربیت اور اسلحہ بھی دیا جبکہ ہزراوں امریکی فوجی زخمی اور ہلاک ہوئے، امریکہ افغانستان کے ساتھ فضائی امداد، آلات اور تنخواہوں کی مد میں تعاون جاری رکھے گا لیکن افغان فورسز کو خود لڑنا ہو گا کیونکہ افغان فوج کی تعداد طالبان سے زیادہ ہے۔
افغانستان میں طالبان دعوی کر رہے ہیں کہ انہوں نے بہت سے علاقے بغیر لڑائی کے قبضہ کئے اور افغان فورسز کے سینکڑوں اہلکار ہتھیار ڈال کر سرنڈر ہوئے ہیں۔ دوسری جانب دوحہ (قطر) میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دور بھی جاری ہے جس میں پاکستان بشمول دیگر ممالک کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی گفتگو میں افغانستان کی صورتحال پر قومی اور بین الاقوامی اداروں کے لئے رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے بیس سالوں میں افغانستان میں بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوا، نیٹو کے چالیس ممالک نے اپنی افواج لا کر افغانستان میں بڑی جنگ لڑی اور افغانستان کی تعمیر پر، جسے ری کنسٹرکشن کہا جاتا ہے، دو ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے، اس میں مختلف پراجیکٹس شامل تھے جن میں افغان آرمی، افغان فضائیہ کو اسلحہ اور تربیت دینا شامل تھا لیکن جو پچھلے چھ دنوں میں افغانستان میں ہوا، طالبان نے جس طرح سے صوبوں پر قبضہ کرنا شروع کیا تو سب حیران رہ گئے، لوگ سمجھ رہے تھے کہ طالبان اگر چاہیں بھی تو ان کے لئے بہت مشکل ہو گا کہ وہ افغان فورسز کے ساتھ لڑیں کیونکہ افغان نیشل آرمی اور ائیرفورس جدید اسلحہ سے لیس ہیں۔
مشتاق یوسزئی نے کہا کہ نمروز پر قبضے کے بعد طالبان رہنماؤں کے ساتھ گفتگو میں انہیں بھی یہ گمان نہیں تھا کہ وہ اتنی آسانی کے ساتھ صوبوں پر قابض ہو جائیں گے اور ان کے ساتھ افغان پولیس اور افغان آرمی کے اہلکار جنگ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں کچھ مسنگ لنک ہے افغان حکومت اور افغان فورسز کے درمیان اور خصوصی طور پر صوبائی حکومتوں کے ساتھ، ”مجھے لگتا ہے کہ ان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے اور ملک اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، لوگوں کی زندگی بہتر کرنے کے لئے ان کی تعلیم، صحت، روزگار پر دولت خرچ نہ کی جائے تو وہ جو بھی ملک ہو گا اس کے عوام اور اداروں کا ریاست پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے جو ایک خطرناک عمل ہے۔
سینئر صحافی کے مطابق اب تک طالبان دعوی کر رہے ہیں کہ ملک کے دس صوبوں پر انہوں نے قبضہ کر لیا ہے، ”اس میں اگرہم دیکھیں تو حیرانگی کی بات یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی نہ ہی کسی طرح کی کوئی مزاحمت کی گئی اور افغان پولیس، افغان آرمی کے اہلکار سرنڈر کر رہے ہیں، قبضے سے پہلے طالبان جرگہ اور مذاکرات کرتے ہیں، طالبان کی کوشش تھی کہ پہلے دیہاتی علاقوں پر مشتمل اضلاع پر قبضہ کریں بعد میں طالبان کمانڈر ملا یعقوب نے اپنی پالیسی بدل دی، جب حکومت نے قندہار اور ہلمند پر بمباری شروع کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلے چھ دنوں میں طالبان نے دس صوبوں پر قبضہ کر کے وہاں پر اپنی حکومت قائم کر لی۔”
مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ سب سے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جہاں پر بھی طالبان نے قبضہ کیا ہے اس میں طالبان کا زیادہ اثر رسوخ نہیں تھا، نمروز اور ثمنگان میں تو بالکل طالبان کا کوئی اثر نہیں تھا، قندوز، فراح میں بھی طالبان کا اثر کم تھا، پہلے افغان حکومت یہ دعوی کر رہی تھی کہ جو علاقے پاکستان کے ساتھ متصل ہیں وہاں پر طالبان مضبوط ہیں لیکن ابھی تک جو صوبے قبضہ ہوئے ہیں ان میں دو ایران کے ساتھ بارڈر پر ہیں صوبہ نمروزاور فراح اور باقی شمالی علاقے جو کہ تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ ہیں اور صوبہ بدخشان چین کے ساتھ بارڈر پر ہے، یہ پاکستان کی سرحد سے بہت دور ہیں اور اگر انٹرنیشنل کمیونٹی نے مداخلت نہ کی تو بہت تیزی کے ساتھ طالبان آگے جائیں گے۔
”افغانستان کے اندر سے جو ویڈیوز جاری ہوتی ہیں ان میں طالبان کے علاوہ عام لوگ بھی بندوقیں اٹھائے نظر آتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ موجودہ نظام سے تنگ آ چکے ہیں لیکن اب یہ طالبان کے لئے بھی بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ افغانستان میں امن نہیں ہے، مختلف ممالک کے لوگ موجود ہیں جبکہ افغان طالبان نے قطر معاہدہ میں کہا ہے کہ یہاں پر غیرملکی جنگجو نہیں ہوں گے اور افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اب دیکھنا ہو گا کہ طالبان ان جنگجوؤں کو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں تاکہ وہ افغانستان کی سرزمین سے اپنے ملکوں میں کارروائی نہ کر سکیں۔
جب مشتاق یوسفزئی سے پوچھا گیا کہ طالبان کی حالیہ کامیابیاں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کی وجہ سے تو نہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ خواتین کی تعلیم اور حقوق کے ساتھ انسانی حقوق کا خصوصی خیال رکھا جائے گا، تو انہوں نے کہا کہ طالبان کی نچلی سطح کے جنگجو وہی پرانے ہیں لیکن ان کے سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ ہم نے اب بہت کچھ سیکھا ہے اور ہم سے کچھ غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی تھیں لیکن اس کا تب ہی پتہ چلے گا جب وہ حکومت میں آئیں گے اور باقاعدہ طور پر کام شرع کریں گے، طالبان کے لیڈر وہی ہیں جو پچھلے دور میں تھے اور انہیں پتہ ہے کہ وسائل کے بغیر ملک نہیں چلتا اور افغانستان ایک جنگ زدہ اور غریب ملک ہے جس کا بیرونی امداد پر ٹوٹل انحصار ہوتا ہے اور دوحہ معاہدہ کے دوران ہم نے دیکھا کہ طالبان کے رہنماء ملا برادر نے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ گفتگو میں مستقبل میں افغانستان کے ساتھ امداد کے لئے کہا تھا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان چاہتے ہیں کہ وہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کریں جس کے لئے انہیں اپنی پالیسی بدلنا ہو گی۔
افغانستان میں اس وقت جنگ ملک کے مختلف حصوں میں پھیل چکی ہے اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ابھی تک دس صوبوں پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے جن میں بدخشاں، نمروز، فراح، ثمنگان، سرپل، جوزجان، قندوز، تخار، غزنی اور بغلان شامل ہیں جبکہ ابھی تک انہوں نے دو بڑی جیلوں کو بھی توڑا ہے جہاں سے انہوں نے تین ہزار سے زائد اپنے جنگجو آزاد کرائے ہیں۔
ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان کے حالیہ قبضوں کے بعد دوحہ میں جاری مذاکرات میں افغان حکومت نے طالبان کو اقتدار میں شراکت کی پیشکش کی ہے۔