مزدور کی کم سے کم اجرت سے آج بھی اکثریت لاعلم ہے
رانی عندلیب
گذشتہ 12 سال سے ایک نجی سکول میں ٹیچنگ کی جاب کرنے والی ثمینہ نے بڑی خوشی سے جمیلہ کو بتایا کہ اس کی سیلری اس مہینے سے 15 ہزار ہو جائے گی۔ جبکہ وہ ڈبل ماسٹرز ہیں تو جمیلہ نے انہیں وزیر اعلی محمود خان کے اعلامیے کے بارے میں بتایا جس میں خیبر پختون خوا کے تمام مزدوروں کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ 21 ہزار روپے کر دی گئی ہے، یہ سنتے ہی ثمینہ حق دق رہ گئیں۔
یہ بات تو آپ لوگوں نے سنی ہو گی کہ مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینی چاہیے۔ ویسے آج کل کے جدید دور میں یہ ماننا یا کہنا رہ مشکل ہی ہے کہ مزدور کی کم سے کم اجرت سے متعلق سرکار کے اس حالیہ فیصلے سے لوگوں کی اکثریت ناواقف ہو گی تاہم جو لاعلم ہیں اور یا وہ جو آگاہ بھی ہیں لیکن کسی نہ کسی مجبوری کے تحت چپ رہنے اور کام کرنے پر آمادہ ہیں۔ چند پرائیویٹ سکولز میں کام کرنے والی خواتین سے گفتگو کے دوران اس حقیقت کا پتہ چلا۔
پرائیویٹ سکول میں پڑھانے والی شمائلہ نامی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام پرائیویٹ سکول میں ٹیچر ہیں جب کہ انہوں نے ماسٹرز کیا ہے، ان کی تنخواہ 16 ہزار ہے لیکن وہ اپنے شوہر کے ساتھ گھر کا خرچہ چلا رہی ہیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ اب جو 21 ہزار کا اعلامیہ جاری ہوا ہے اس بارے میں وہ کیا کہیں گی تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں انہیں کوئی علم نہیں۔
پشاور شہر سے تعلق رکھنے والی ماریہ کہتی ہیں کہ وہ شادی شدہ ہیں، پرائیوئٹ سکول میں جاب کر رہی ہیں، ڈبل ماسڑز کیا ہوا ہے، تنخواہ بھی 16 ہزار ہے، انہیں وزیر اعلی کے اعلامیے کا پتہ ہے جو مزدوروں کے حق میں پاس ہوا ہے لیکن وہ اس لیے خاموش ہیں کیونکہ ان کی دو سال کی بیٹی ہے اور وہ روز ماریہ کے ساتھ سکول آتی ہے۔
ماریہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر وہ کسی بڑے سکول میں جاب کرتیں تو بڑے سکول میں رولز بھی سخت ہوتے ہیں اور وہاں پر ماریہ کی بیٹی بھی ماریہ کے ساتھ سکول نہیں جائے گی اور نہ وہاں پر موبائل کی پرمشن ہوتی ہے۔
سمیرا، جس کا تعلق اندرونی شہر سے ہے، کا کہنا ہے کہ وہ ایک بڑے سکول میں جاب کر رہی ہیں اور ان کی تنخواہ 19 ہزار ہے لیکن کنوینس اور سکیورٹی کے نام سے کٹوتی کے بعد ان کی تنخواہ 14 ہزار 200 روپے بچ جاتی ہے جب کہ سکول کے رولز اتنے سخت ہیں کہ سمیرا چیکنگ کے لیے کاپیاں گھر لاتی ہیں لیکن سمیرا مجبور ہیں کہ گورنمنٹ جاب نہیں تو پرائیویٹ جاب تو وہ کہیں نا کہیں کریں گی ہی۔
امین کالونی کی رہائشی سونیا کہتی ہیں کہ وہ پچھلے بارہ سال سے ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہی ہیں، تنخواہ 20 ہزار ہے لیکن وہ گھر کا خرچا چلا رہی ہیں، ”اگر وزیر اعلی کے اعلامیے کے مطابق 21 ہزار ہو جائے تو بہت اچھا ہو گا، لیکن آج کل مہنگائی کے دور میں 21 ہزار سے گھر کا خرچ نہیں چلتا، بجلی کے بل، گھی، آٹا، چینی انتہائی مہنگے ہیں، اس کے علاوہ گھر کا کرایہ، ڈاکٹر کی فیس، گھر میں مہمانوں کی آمد، اپنے بچوں کے خرچے، اپنا خرچہ، 21 ہزار تھوڑے پڑتے ہیں۔”
اس بارے میں جب ایک پرائیویٹ سکول کے پرنسپل سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ اپنے سٹاف والوں کو کم سیلری کیوں دیتے ہیں؟ تو پرنسپل کا جواب یہ تھا کہ وہ بچوں سے کم فیس لیتے ہیں، دوسرا یہ کہ علاقے کا سکول ہے، ”ہمیں پیرنٹس کا پتہ ہوتا ہے کہ وہ اتنی زیادہ فیس افورڈ نہیں کر سکتے، ایک اور بات یہ بھی ہے کہ ہم ٹیچرز کو تنگ نہیں کرتے، جتنا ایک بڑا ادارہ زیادہ تنخواہ دے کر ٹیچرز سے کام لیتے ہیں اور تنگ کرتے ہیں۔”