شہروں میں نصب موبائل ٹاورز کتنے خطرناک ہیں ؟
محمد طیب
پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر بڑے شہروں میں نصب موبائل ٹاورز شہریوں کے لیے خطرے کی علامت بن گئے ہیں جس کے باعث مستقبل میں کئی شہری آبادیوں میں نصب ٹاورز سے موذی بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔
اس حوالے پشاور ہائی کورٹ نے شہری آبادیوں سے موبائل ٹاورز ہٹانے کا حکم دیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس وقت صوبے کے بڑے شہروں میں آبادیوں کے درمیان غیر قانونی ٹاورز نصب ہے۔ عدالتی احکامات کے باوجود تمام شہروں میں انتطامیہ بے بس نظر آرہی ہے کیونکہ ابھی تک پورے صوبے میں ایک بھی ایک ایسی خبر سننے کو نہیں ملی کہ فلاں شہر میں انتظامیہ نے شہری آبادی سے موبائل ٹاور ہٹا دی۔ پشاور سمیت مردان، چارسدہ، صوابی، نوشہرہ، بنوں، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان،ایبٹ آباد سمیت دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں نجی موبائلز کمپنیوں کے سینکڑوں موبائل ٹاورز آبادیوں میں نصب ہیں لیکن اس کے خلاف کاروائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا میں ماحولیاتی آلودگی پر نظر رکھنے والی ایجنسی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے سرکاری اعداد شمار کے مطابق اس وقت صوبے میں 366 کے لگ بھگ موبائل ٹاورز نصب ہیں جن میں 195موبائل ٹاورز رہائشی علاقوں میں نصب ہیں جبکہ 46 سکولوں کے اور 55 مساجد کے قریب ہیں جس کا انسانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ مذکورہ ٹاور بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں تاہم 20 ایسے کی نشاندہی ہوئی ہیں جو خطرناک ہیں اور بین الاقوامی معیار کے مطابق بھی نہیں تاہم سرکاری اعداد شمار کے باوجود بھی تاحال اس پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق شہری آبادیوں میں نصب ٹاورز میں ایسی ٹاور بھی ہے جو 2009 سے پہلے نصب کیے گئے ہیں اور اُس وقت این او سی کی پالیسی نہیں تھی۔ سیاسی اور سماجی حلقوں کے مطابق نجی موبائل کمپنیوں نے ٹاورز نصب کرتے وقت ان کے قانون اور صحت کے حوالے کوئی خاص اقدامات نہیں اُٹھائے جس کی وجہ سے آج صوبہ بھر میں مذکورہ موبائل ٹاورز خطرے کے نشان بن گئے ہیں۔ موبائل ٹاورز کی قانونی حیثیت کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ عالمی قوانین کے تحت موبائل ٹاور رہائشی علاقوں، سکولوں اور مساجد وغیرہ سے دورنصب کرنا چاہیے اور قانون کے مطابق مساجد اور سکولوں سے 100 میٹر کے فاصلے پر ٹاور نصب کرنا ہوگا۔ سیف اللہ محب کاکا خیل کے مطابق انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) نے پہلے ہی سے ٹاور کے تنصیب کے لیے گائیڈ لائنز جاری کئے ہیں جس میں ٹاورز کی اونچائی، رہائشی علاقوں، پارکوں، مساجد اور تعلیمی اداروں سے فاصلہ اور ٹاور پر لگے ہوئے اینٹینا کے سائز کے حوالے سے تمام نجی کمپنیوں کو آگاہ کردیا گیا ہے۔
موبائل ٹاور سے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں پشاور میں فرائض انجام دینے والے چلڈرن سپشلسٹ ڈاکٹر خالد کا کہنا ہے کہ رہائشی علاقے میں موبائل ٹاورسے خارج ہونے والی خطرناک شعاعوں سے لوگوں کی صحت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور اس سے کینسر، سکن اور دیگر بیماریاں لگنے کا اندیشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرونی ممالک میں موبائل ٹاور زآبادیوں سے دور نصب کئے جاتے ہیں تاکہ ٹاور سے خارج ہونے والے خطرناک شعاعوں سے لوگ محفوظ ہو لیکن بد قسمتی سے یہاں پر شہری آبادیوں میں نصب کیے جارہے ہیں جو کہ انسانی صحت کے خطرناک ہے۔
واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ واضح احکامات جاری کیے ہیں کہ غیر معیاری اور انسانی جانوں کے خطر ناک ٹاورز کو رہائشی علاقوں سے ہٹایا جائے لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی بڑی کاروائی نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔