کیا موبائل فون رکھنے والوں پر بھی قربانی واجب ہے ؟
کیف آفریدی
دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اسلامی کلینڈر کے آخری مہینے دس ذی الحج کو عید الضحی ٰمناتے ہیں اور اس عید پر مسلمان جانوروں کی قربانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس عید کو عید قربان بھی کہا جاتا ہے۔
عید الضحیٰ کی قربانی کے حوالے سے معروف عالمی دین مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کی ہے جس میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے قربانی کے حوالے تمام مسائل سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
قربانی کن لوگوں پر واجب ہے؟
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے اس حوالے سے بتایا کہ اصطلاح شریعت میں قربانی ایک مالی عبادت کو کہتے ہےجس میں خاص جانورکو خاص دنوں میں اللہ تعالیٰ کےلئے ثواب اور تقرب کی نیت سے ذبح کرنا۔قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقہ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، تجارت کا سامان، ضرورت سےزائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
مفتی پوپلزئی کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ سامان میں آج کل کے قیمتی موبائل فونز اور ڈیکوریشن کا سامان بھی آتا ہے اگر کسی کے پاس اس طرح کے سامان ہو یا قیمتی موبائل فونز ہو جن کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو ان پر قربانی واجب ہے خوا وہ مرد ہو یا عورت۔
کن جانوروں کی قربانی جائز ہے اور کن کی جائز نہیں ؟بڑے او چھوٹے جانور کی قربانی میں کتنے حصے ہوتے ہیں؟
مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے بقول بھیڑ، بکرا، دُنبہ، ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے۔ گائے، بیل، بھینس، اُونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے،ان تمام جانوروں کی قربانی درست ہے خوا نر ہو یا مادہ ہو یا خصی ہو۔ بشرط یہ کہ سب کی نیت ثواب کی ہو، کسی کی نیت محض گوشت کھانے کی نہ ہو۔ بکرا، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے۔ بھیڑ اور دُنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے۔ گائے، بیل، بھینس دو سال کی جبکہ اُونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے تاہم ان عمروں سے کم جانور قربانی کے لئے کافی نہیں، اگر جانوروں کا فروخت کرنے والا پوری عمر بتاتا ہے اور ظاہری حالات سے اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی تو اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔جن جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہوں یا بیچ میں سے ٹوٹ گئے ہوں اس کی قربانی دُرست ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قربانی ایک اہم عبادت اور اسلام کا شعار ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔اسی لیے صحت مند اور بے عیب جانور کی قربانی دینی چاہیے۔اور ان عیوب کو جاننا ہمارے لیے ضروری ہے جن سے قربانی نہیں ہوتی۔
‘‘چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے”
1: ایسا کا نا جانور جس کا کا نا پن ظاہر ہو۔
2:ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو۔
3:ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو
4:انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
قصائی پرقربانی کا جانور ذبح کرنا درست ہے ؟
پوپلزئی کے مطابق دین کا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنا بہت بہتر ہے اس لیے اگر کسی کو ذبح کرنے کا طریقہ آتا ہو اور وہ موجود بھی ہو تو وہ اپنے ذبیحہ کو خود ذبح کریں خوا وہ مرد ہو یا عورت۔ کیونکہ یہ ثواب بھی ہے اور افضل بھی اور اگر کوئی ذبیحہ کرنا نہیں جانتا یا کسی عذر کی وجہ سے زبیحہ نہیں کر سکتا یا کسی اور وجہ سے قاصر ہے اور قصائی پر قربانی کا جانور ذبیحہ کرتا ہے تو اس میں اس کے ثواب پر کوئی اثر نہیں پڑتا البتہ اسی قربانی کے جانور سے گوشت ، کھال یا کسی بھی چیز قصائی کو عوض کے طور پر نہیں دے گا ۔ قصائی کی اجرت اپنی جیب سے دینا ہوگا ۔
انکا مزید کہنا ہے کہ جانور کو ذبح کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے کم سے کم اذیت پہنچے۔اگر قربانی کے شرکاء اپنے حصے کا گوشت پورا لینا چاہیں تو وزن کر کے برابر برابر حصہ لیں،اندازے سے لینا درست نہیں ،اگر شرکاء اپنا حصہ پورا نہ لینا چاہیں بلکہ کچھ لیکر باقی گوشت لوگوں کو دینے کا ارادے کریں تو وزن کر کے تقسیم کرنا لازم نہیں۔ اگر شرکاء میں کسی کی نذر کی قربانی ہے تو اس کیلئے وزن کرکے لینا ہی ضروری ہے کیونکہ اسکو اپنی حصے کے گوشت کا صدقہ کرنا لازم ہے ۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم میں مستحب یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں ایک حصہ فقرآء و مساکین ،دوسرا حصہ عزیز واقارب اور پڑوسیوں جبکہ تیسرا حصہ اپنے لئے اور اپنے بال بچوں کیلئے ہوتا ہے تاہم اگر فیملی بڑی ہے اور ایک کی بجائے دو حصے یا تینوں حصے ہی اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے تو جائز ہے ۔