‘کبھی سوچا نہ تھا کہ جولائی میں بھی بچے سکول جائینگے’
رانی عندلیب
آج صبح گھر سے نکلتے ہی میری نظر سکول جانے والے بچوں پر پڑی لیکن اتنا دھان نہیں گیا پھر جب راستے سے گزرتے ہوئے میں نے سکول کے بچوں کی اتنی زیادہ تعداد دیکھی تو یاد آیا کہ آج سے تو گورنمنٹ ہائی سکول بھی کھل گئے ہیں اور مجھے ایسا لگا جیسے ااکتوبر ، نومبر یا جنوری ، فروری کا مہینہ ہو۔ دل میں خیال آیا کہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ یہ جولائی کا مہینہ ہے کیونکہ بچے تو کافی تعداد میں تھے لیکن انہوں نے سکول یونیفارم نہیں پہنی تھی جس کی ایک وجہ کورونا وبا کی چھٹیاں تھی جس کا اثر ان بچوں پر واضح نظر آرہا تھا۔
میں چونکہ بچوں کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اس لئے وہ جو کہتے تھے میں آسانی سے سن سکتی تھی اس دوران ایک لڑکی نے دوسری لڑکی سے کہا کہ چھوٹی بہن کو آج سے دو سال پہلے سکول میں داخل کروایا تھا لیکن انہیں دیگر بچوں کی طرح ابھی تک اسمبلی کا پتہ نہیں کہ اسمبلی کیا ہوتی ہے ؟
صبح کا یہ منظر دیکھ کر میرا ذہن آج سے دو سال پہلے ماضی بعید کی طرف چلا گیا اور وہ وقت یاد آیا جب بچے وقت پر سکول جاتے تھے تاکہ ان سے اسمبلی مس نہ ہو، تلاوت ،قومی ترانہ روز اسمبلی میں پڑھایا جاتا تھا، تمام طلبہ و طالبات مکمل یونیفارم میں سکول جایا کرتے تھے ، ہر سکول کا اپنا ڈسپلن ہوتا تھا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ بچے تو سکول جاتے ہیں لیکن انہیں ان بنیادی باتوں کا علم نہیں جس کی وجہ سے نہ تو وہ سکول ڈسپلن فالو کرتے ہیں اور نہ ہی ٹیچر کا ادب کرتے ہیں۔
میری زندگی میں یہ پہلے جولائی کا مہینہ ہے یا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا جولائی کا مہینہ ہوگا جس میں بچے سکول جاتے ہیں کیونکہ جب کورونا وائرس کی وبا نہیں تھی تو تب یکم جون سے 31 اگست تک موسم گرما کی چھٹیاں ہوتی تھی کبھی بھی جولائی کی سخت گرمی میں بچے سکول نہیں گئے تاہم اس بار صورتحال تبدیل ہوچکا ہے اور تمام گورنمنٹ ہائی سکول اور پرائیوٹ سکول کے بچے بخوشی سکول جارہے ہیں جبکہ کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہیں ۔
اس حوالے جب میں نے ایک والدہ سے بات کی جس کا بچہ پرائیوٹ سکول میں پڑھتا ہے اس کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے جب آن لائن کلاسز تھی تو اس کا بچہ اس طرح سے نہیں پڑھ رہا تھا جس طرح سکول کے ماحول میں پڑھ سکتا ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ گھر میں لائٹ اور نیٹ کا مسئلہ ہوتا تھا جبکہ ہم بچے کو ان لائن کلاسز لینے کے لئے نیٹ کا پیکج کرتے تھے جو دو دن بعد ختم ہوجاتا تھا لیکن پھر بھی بچے کی پڑھائی مکمل نہیں ہوتی تھی اب جب بچے سکول جانے لگے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو پڑھ لینگے اور اگر گرمی کی بات کی جائے تو سکول میں بچے پنکھے کے نیچھے پڑھتے ہیں اور اس سے ہمارا مطمئن ہیں۔
دوسری جانب پرائیوٹ سکول میں پڑھانے والی ٹیچر نازیہ کا کہنا ہے کہ جولائی میں بچوں کو پڑھانے مقصد ان کا کورس پورا کرنا ہے اور دوسری بات یہ کہ جب سکول کھولے ہوینگے تو ہمیں تنخوا ہ بھی مل جائے گی کیونکہ پچھلے سال جب پرائیوٹ سکولز بند تھے تو انہیں سیلری نہیں ملی تھی اس لئے وہ جولائی میں سکول کھولنے پر خوش نظر آرہی ہیں۔
پرائیوٹ سکول کی طرح سرکاری سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین بھی اس فیصلے پر خوش ہیں اس حوالے سے جماعت نہم میں پڑھنے والی گل غوٹی کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ جولائی میں بیٹی کے سکول جانے پر خوش ہیں لیکن وہ اس سے امتحان لینے پر خوشی نہیں اور وہ چاہتی ہیں اس کی بیٹی سے لازمی مضامین میں امتحان لیا جایا کیونکہ ان کا کورس پورا نہیں ہوا ہے۔