بلاگزخیبر پختونخوا

‘بہو پر ساس سسر کی خدمت فرض نہیں واجب ہے’

نشاء عارف

کہا جاتا ہے کہ  ایک مرد نے کسی عالمہ سے شادی کی اور کچھ دن بعد  اس نے شوہر سے کہا کہ شرعی لحاظ سے آپ کے والدین کی خدمت کرنا میرا فرض نہیں ، تو اس لئے مجھے آپ مجھے الگ  گھر لیکر دو، شوہر نے  ٹھیک ہے کہہ کر بیوی کو جواب دیا  اور کہا کہ بیگم آپ کی بات درست ہے لیکن  میں  اپنے والدین کو بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ، آپ  بے شک الگ گھر میں رہو لیکن  اسلام نے مجھے  بھی دوسری شادی کرنے  کی اجازت دی ہے میں بھی دوسری شادی  کرکے اپنے والدین کے ساتھ رہونگا اور میری دوسری بیوی ان کی خدمت کرے گی۔

بے شک اسلام میں شوہر  بیوی کو الگ گھر میں  رکھ سکتا ہے اور بہو  پر ساس سسر کی خدمت کرنا فرض نہیں  لیکن  شوہر کی وجہ سے ساس سسر بھی والدین  کی حیثت رکھتے ہیں اس لئے شادی کے بعد بہو کو چاہیے کہ وہ حسب ہمت و طاقت ماں باپ کی طرح  ساس سسر کی خدمت کرے جس کا اسلام  میں بہت بڑا اجر ہے۔

شرعی اعتبار  سے  عورت  پر ساس سسر کی خدمت کرنا فرض ہے لیکن  اگر کوئی بہو شادی کے بعد اپنے سسرال میں ساس سسر کی خدمت کرنے پر راضی نہیں ہو تو شوہر اس پر زبردستی کرکے  ساس سسر کی خدمت کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ ہاں ! اگر وہ اپنی مرضی اور خوشی سے ساس کی خدمت کرے تو بہتر ہے ( اس میں سسر کی جسمانی خدمت شامل نہیں ہے  اور نہ ہی جائز ہے)۔

دوسری طرف ساس سسر کو بھی چاہیے  کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کا درجہ دے  اور اگر  گھریلوں  کام کاج میں بہو سے کوئی معمولی غلطی ہوجائے  تو اس کو نظرانداز کرکے درگزر کرنا چاہیے  اور غلطی ہونے پر  پیار اور شفقت سے بہو کو سمجھائے کیونکہ اس طرح کرنے سے گھر کا ماحول عمدہ  اور بہترین ہوگا جبکہ گھر ساس بہو کی لڑائی اور جھگڑوں سے محفوظ رہے گا۔

میاں بیوی اور سسرالی رشتہ باہمی حسن اخلاق ، حسن معاشرت  اور باہمی ایثار سے چل سکتا ہے  اور شریعت نے میاں  بیوی کے حقوق متوازن  رکھا ہے  جبکہ حس معاشرت کا حکم دیکر یہ واضح  کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ  باہم  اخلاقیات اور ایثار سے چلتا ہے  تاہم کچھ چیزیں  بیوی کے ذمہ لازمی نہیں کی جبکہ  کچھ شوہر کے ذمہ  لازم کی ہے لیکن  حسن معاشرت کے باب میں دیانت  اور اخلاقیات  ایک دوسرے پر  لازم ہے ۔ بہو  کے ذمہ  ساس کی خدمت شرعا واجب نہیں ہے لیکن اخلاقی طور پر بہو کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔

اگر بہو فارغ ہو تو ساس سسر کی جائز خدمت کرنا اس پر لازم ہے، انسانی ہمدردی کے علاوہ  اس وجہ سے بھی  کہ وہ شوہر کے والدین  حتیٰ کہ شوہر کے والدین کی خدمت کرنا ایسا ہے  گویا شوہر کی خدمت کریں۔

اس کے علاوہ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے  کہ جب تک ساس سسر زندہ ہو تو ان کی خدمت کیا  کروں  اور ان کی تابعداری کو فرض  سمجھو، شوہر کو ساس سسر  اور نندوں  سے الگ کرنے سے پہلے ایک مرتبہ یہ سوچنا چاہیے کہ وہ  بیٹا  جس کو ماں باپ نے   پال پوس کر بڑا  کیا ہو اور ماں باپ  بڑھاپے  میں اس کی شادی  اس آسرے   پر کی ہو کہ بہو آنے سے ہم کو آرام ملے گا اور اس دوران  بیوی شوہر کو ماں باپ سے الگ کرلے تو  اس ماں باپ کے دل پر کیا گزرے گا۔

قانون کے مطابق اگر بہو پر ساس سسر کی خدمت  کرنا فرض نہیں  ہے  اور  اگر بہو ساس سسر کا خیال نہیں رکھے گی  تو ساس سسر پڑھاپے  میں کہاں جائیں گے اور ان کا خیال کون رکھے گا۔  اسی طرح مرد بھی چار شادیاں  کرسکتا ہیں  تو اگر ایک بیوی  اس کے ماں باپ کا خیال نہیں رکھ سکتی  تو پھر والدین  کی خدمت کے لیے وہ دوسری   شادی بھی کرسکتا ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button