لوگ آخر خود کشی کیوں کرتے ہیں؟
عربہ
آج کل کے دور میں یہ بات بہت عام ہوچکی ہے اور ہمیں ہر روز ٹیلی ویژن اور اخبارت میں یہ دیکھنے کو ملتا ہیں کہ فلاں جگہ میں فلاں شخص نے خودکشی کردی لیکن میں سوچتی ہوں کہ آکر ان لوگوں (جو خودکشی کرتے ہیں) کی ایسی کیا مجبوری ہوگئی جو اتنا بڑا اقدام اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا فنا کردیتے ہیں ؟
چلو مان لیتے ہیں کہ موجودہ وقت میں ہرانسان کسی نہ کسی مصبیت میں مبتلا ہے لیکن اسکا یہ مطلب تو نہ نہیں کہ ہم کسی بھی بات پر طیش میں آکر خودکشی کا راستہ اپنالے۔
میرے خیال میں آج کل کے دور میں ماں باپ اپنے بچوں کو بہت لاڈ، پیار دیتے ہیں ،ان کی ہر فرمائش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہیں کہ ان کے بچوں کو کبھی بھی کسی چیز کی کمی نہ رہے تاہم زیادہ لاڈ، پیار کی وجہ سے یہ بچے بگڑ جاتے ہیں اور والدین سے مختلف قسم کے فرمائشیں کرتے ہیں لیکن جب والدین انکے مطالبات ماننے کو تیار نہیں ہوتے تو یہ بچے اس دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوا، میرا فلاں کام نہیں ہوا تو خود ختم کردونگا اور یوں ہی جانے انجانے میں اسطرح کا قدم اٹھا کر ماں باپ کو عمر بر غم میں مبتلا کردیتے ہیں۔
معاشی مسائل کا حل
بعض اوقات لوگ اس لیے بھی خودکشی کرتے ہیں کہ انہیں فاقہ کشی کا کوئی حل نظر نہیں آتا جبکہ معاشی مسائل کا حل معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔
گزشتہ ادوار میں جب کوئی پریشان حال شخص ایک طرف بیٹھا ہوا نظر آتا تھا تو صاحب حیثیت لوگ خود اس کے قریب جا کر اس کی مدد کردیا کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں پیشہ ور گداگروں کی بہتات نے مخیر افراد کو بھی کنجوسوں کی روش اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ہم سب کو چاہئے کہ معاشی مسائل کے حل کیلئے گزشتہ ادوار کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کا اجتماعی رویہ اپنائیں جس کیلئے مسلسل جدوجہد، انتھک محنت اور طویل انتظار کی ضرورت ہے کیونکہ یہ رویے طویل وقت کے بعد پیدا ہوئے اور انہیں واپس مثبت سمت میں لے جانے کیلئے بھی شاید اتنا ہی وقت درکار ہو۔
ممکنہ علاج
نفسیاتی بیماریوں کا علاج پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے تاہم علاج سے احتیاط کو بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی امراض سے محفوظ رہنا ہے تو گھریلو ماحول کو خوشگوار بنائیں۔ مایوسی تمام تر مسائل کی جڑ ہے۔ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس کے حل سے قبل مثبت سوچ کو فروغ دینا ضروری ہے۔
ذہنی اذیت سے بچنے کیلئے ڈپریشن کا شکار افراد کو چاہئے کہ ابتدا ہی سے ماہرینِ نفسیات سے رابطہ کریں اور اپنے مسائل کو تفصیل سے بیان کرکے ان کا حل تلاش کریں۔ وقت کو فضول کاموں میں ضائع کرنے کی بجائے مثبت سرگرمیوں میں استعمال کریں۔
اسلام کا مؤقف
مایوسی کفر ہے۔ اسلام کے مطابق خودکشی وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا کی رحمت سے مایوس ہوجائیں۔ قران پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’ کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا۔ بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔’
دوسری جانب انسان کا جسم اور زندگی اسلام کے نزدیک اس کی ذاتی ملکیت یا کسبی نہیں بلکہ اللہ کی عطا کی ہوئی امانت ہے۔ زندگی اللہ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو باقی نعمتوں کیلئے بنیاد فراہم کرتی ہے۔
دینِ اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی بالکل اجازت نہیں کیونکہ زندگی اور موت دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 195 میں ارشاد فرماتا ہے: اور اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور صاحبانِ احسان بنو، بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
پاکستان میں خودکشی کا رجحان
حال ہی میں گیلپ سروے نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق 7 فیصد پاکستانی خودکشی کرکے موت کا شکار یا ناکامیاب ہونے والے افراد کو براہِ راست جانتے ہیں۔ ملک کی آبادی اس وقت 22 کروڑ 14 لاکھ 68 ہزار سے زائد ہے جس کا 7 فیصد 1 کروڑ 55 لاکھ افراد بنتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 40 سیکنڈ میں 1 شخص خودکشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ ہر سال 8 لاکھ افراد خود اپنی ہی جان لے لیتے ہیں جبکہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد میں موت کی دوسری اہم وجہ خودکشی ہوتی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق سن 2016ء کے دوران خودکشی کے 79 فیصد واقعات کا تعلق پسماندہ یا غریب ممالک سے تھا جبکہ پاکستان میں خودکشی کی شرح اسی سال 1 لاکھ کی آبادی میں 1.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ایچ آر سی پی (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) کے مطابق 2015ء میں خودکشی کے 1 ہزار 900 واقعات ہوئے۔