ڈہرکی ٹرین حادثہ، جاں بحق افراد کی تعداد 51 ہو گئی
سندھ کے علاقے ڈہرکی کے قریب ملت ایکسپریس اور سر سید ایکسپریس حادثے کا شکار ہو گئیں جس کے نتیجے میں جاں بحق افراد کی تعداد 51 ہو گئی جبکہ 100 سے زائد مسافر زخمی ہیں جن میں ایک بڑ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا جارہی تھی اور سرسید ایکسپریس پنجاب سے کراچی جارہی تھی کہ ملت ایکسپریس کی بوگیاں ڈہرکی کے قریب پٹری سے اتر گئیں جب کہ اس دوران آنے والی سرسید ایکسپریس ڈی ریل بوگیوں سے ٹکرا گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حادثہ ڈہرکی اور ریتی لین اسٹیشن کے قریب پیش آیا جس میں ملت ایکسپریس کی 8 اور سرسید ایکسپریس کے انجن سمیت 3 بوگیں پٹری سے اتر گئیں۔
ذرائع کے مطابق حادثے کی اطلاع ملنے کے چند گھنٹے بعد علاقے میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا، زخمیوں اور جاں بحق افراد کو صادق آباد، ڈہرکی اور میرپور ماتھیلو کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے جہاں اب تک 51 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ 100 سے زائد مسافر زخمی ہیں۔
ذرائع نے تصدیق کی ہےکہ ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں ریلوے کے چار ملازمین بھی شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ اب بھی متعدد مسافروں کے ٹرین میں پھنسے ہونے کا خدشہ ہے جس کے لیے ہیوی مشینری منگوائی گئی ہے۔
مقامی حکام کا بتانا ہےکہ رات گئے حادثے کی وجہ سے اندھیرے کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ہیوی مشینری کے پہنچنے میں تاخیر ہوئی ہے تاہم مقامی لوگ امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
ایس ایس پی گھوٹکی کا کہنا ہے کہ جائے حادثہ پر میڈیکل ریلیف کیمپ لگا دیا گیا ہے اور زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے جب کہ متاثرہ مسافروں کو ہرقسم کی امداد فراہم کررہے ہیں۔ حکام کے مطابق متاثرہ ٹرینوں کے مسافر ٹریکٹر ٹرالیوں پر سوار ہو کر قومی شاہراہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
ریلوے حکام نے حادثے کی تحقیقات کے لیے 21 گریڈ کے افسر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جب کہ ریلوے نے حادثے میں جاں بحق افراد کے ورثا کے لیے 15 لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا ہے، زخمیوں کو ان کے زخموں کی نوعیت کے حوالے سے کم سے کم ایک لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ روپے امداد دی جائے گی۔
پاکستان ریلوے کی تاریخ میں اب تک کے بڑے حادثات
پاکستان ریلوے کی تاریخ میں اب تک کئی بڑے حادثات ہوئے جن میں سیکڑوں افراد جان سے گئے اور ریلوے کو کروڑوں کا نقصان بھی ہو چکا۔
پاکستان ریلوے کی تاریخ کئی بڑے حادثات سے بھری پڑی ہے، بھیانک ترین ٹرین حادثہ 4 جنوری 1990 کو ہوا، جب پنوں عاقل کے قریب سانگی میں ٹرین حادثے میں 307 افراد جان سے گئے۔
1953 جھمپیر کے قریب ٹرین حادثے میں 200 افراد جاں بحق ہوئے، اسی طرح 1954 میں جنگ شاہی کے قریب ٹرین حادثے میں 60 قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں جبکہ ریلوے کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔ 22 اکتوبر 1969 کو لیاقت پور کے قریب ٹرین حادثے کا شکار ہوئی، 80 افراد جان سے گئے۔
13 جولائی 2005 کو گھوٹکی کے قریب تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں، 120 افراد جاں بحق ہوئے۔ جولائی 2013 میں خان پور کے قریب ٹرین رکشے سے ٹکرا گئی، 14 افراد جان سے گئے۔ 2 جولائی 2015 کو گوجرانوالہ میں خوفناک ٹرین حادثہ پیش آیا، 19 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔
17 نومبر 2015 بلوچستان میں ٹرین حادثے کے نتیجے میں 20 افراد لقمہ اجل بنے۔ 3 نومبر 2016 کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں دو ٹرینیں آپس میں ٹکرائیں، نتیجہ بھی خوفناک نکلا، 21 افراد جاں بحق ہوئے۔ 31 اکتوبر 2019 کو ضلع رحیم یار خان میں مسافر ٹرین میں آگ لگنے سے 74 افراد جان سے گئے۔ 11 جولائی 2019 کو رحیم یار خان کے قریب اکبر ایکسپریس مال گاڑی سے ٹکرا گئی، جس میں 20 مسافر جاں بحق اور 60 زخمی ہوئے۔
سال 2019 پاکستان ریلوے کی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوا، 100 سے زائد حادثات ہوئے۔ ریلوے ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ جون میں 20 حادثات ہوئے، انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ ریلوے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔