خان صاحب کہاں ہے وہ ایک کروڑ نوکریاں؟ لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں
سمن خلیل
بے روزگاری وہ فتنہ ہے جو کسی بھی معاشرے میں فساد برپا کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ جب انسان بھوکا ہو اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہ ہو تو وہ کھانے کے حصول کے لئے اچھے اور برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ اس وقت اس کی سوچ صرف پیٹ کی دوزخ بھرنے تک محدود ہو جاتی ہے اوراسے غلط کام بھی صحیح لگ رہا ہوتا ہے۔ آج کل پاکستان میں جرائم بڑھنے کی بنیادی وجہ بے روزگاری ہے۔ اس فتنے نے اتنی تیزی سے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے کہ اب اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر بے روزگاری پچھلے کچھ سالوں میں اتنی کیوں بڑھ گئی ہے ، اگر ٖغور کیا جائے تو مہنگائی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ایک مسئلہ حل ہونے کو آتا نہیں ہے کہ دوسرا سر اٹھا لیتا ہے۔ مہنگائی نے الگ عوام کا حال برا کیا ہے عید کو ابھی چند دن ہی گزرے ہیں کہ مرغی کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے ، ایک غریب انسان کی پہنچ سے گوشت کافی دور جاچکا ہے۔ پہلے مڈل کلاس بندہ دالیں اور سبزیاں یہ سوچ کر کھا لیتا تھا کہ ہمارا دو وقت کا گزا ہوجائے گا مگر دن بہ دن قمیتوں میں اضافے کی وجہ سمجھ نہیں آتی بندہ کیا کھائے اور کیا نہیں۔
مہنگائی کے اس عالم نے عوام کو غلط کاموں پر مجبور کردیا ہے کئی لوگ چوریاں اور دن دھرے ڈاکے کرنے مجبور ہیں تو دوسری طرف رشوت لے کر دوسروں کا حق مار رہے ہیں اور اپنے پیٹ کی دوزخ بھر رہے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے آنکھوں کے سامنے سے ایک واقع گزرا جس نے دل ہلا کر رکھ دیا ایک مصوم سی بچی جس نے عید کے دن باپ سے گڑیا خریدنے کی فرمائش کی ، باپ دریا پر سیر کے بہانے بیٹی کو لے کر گیا اور غربت کے مارے باپ نے نہ جانے کس جگر کے ساتھ ننھی سی جان کو دریا کے حوالے کردیا ، بچی اپنے باپ کو حیرت زدہ نگاہوں سے تکتی رہ گئی ظلم کی انتہاء اور قیامت کا سماء سا برپا ہوگا دیکھتی آنکھوں کو یقین نہ آیا۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل اپنا مستقبل سنوارنے بیرون ِ ملک جا رہی ہے یہاں وہ ہی رہ جاتے ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اب ایسے حالات میں ملک کیسے ترقی کرے گا کیونکہ آگے بڑھنے کے تمام راستے تو مسدود کردیئے گئے ہیں صرف مسائل ہی ہیں جو ہر طرف نظر آرہے ہیں۔
ایک بات جو میری سمجھ سے بالکل باہر ہے وہ یہ ہے جب ہمارے پیارے وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں تشریف لائے تھے تو ایک کڑور نوکریاں دینے کا فیصلہ کیا تھا ، اب کوئی خان صاحب سے پوچھے کہ کہاں گئے اپ کے وہ وعدے ؟ کہاں ہیں وہ نوکریاں ؟ وہ غریب عوام کو سہولیت فراہم کرنے کے وعدے اس صدی میں تو پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں عوام تو خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان جیسا ملک جہاں ایک تو پہلے ہی بے روزگاری اپنے عروج پر تھی کورونا کی وجہ سے کئی بار لاک ڈاون لگایا گیا لوگ کمائیں کہاں سے اور کھائیں کہاں سے ، ایک آدمی نے جب اپنے گھر میں دیکھا کہ بچے چانچ دن سے بھوکے مررہے ہیں تو وہ اپنی اولاد کواس حال میں نہ دیکھ سکا اور نہ چاہتے ہوئے بھی خود پر پیڑول چھڑک کر آگ لگا دی ، مطلب کیا اب عوام کے پاس بس ایک ہی حال وہ گیا ہے کہ وہ یا اولاد کو مار دے یہ خودکشی کرلے۔
مجھے وہ وقت یاد آتا ہے کہ جب بچپن میں میری والدہ ہمیں رات کو سونے سے پہلے روز ہمیں اسلامی واقعات سناتی تھی، ایک بار دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہہ کا واقع بیان کیا جس میں انھوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہہ اپنی دور حکومت میں روز رات کو سونے سے پہلے بستی کا چکر لگاتے تھے کہ کہیں میری رعایہ میں سے کوئی بھوکا تو نہیں سوگیا ، خلیفہ اول کو اتنا خوف خدا تھا کہ وہ ایک کتے تک کو بھوکا سونے نہیں دیتے تھے ، کہ کہیں اس کا سوال مجھ سے ہوگیا تو میں اپنے اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔
ہمارے حکمران نجانے کونسے بلی کے بل میں سورہے ہیں جو عوام مررہی ہے یہ جی رہے ہیں ان کو کوئی خبر ہی نہیں ہے۔
ایسے حالات میں ملک اور معاشرے کو مثالی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ فراہم کئے جائیں اور عوام کے جان و مال کا تحفظ کیا جائے۔ سرمایہ کاروں کو ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب کیا جائے۔ ملک کا ٹیلنٹ باہر جانے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ انھیں یہاں وہ تمام مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں جو انھیں باہر جانے کی طرف راغب کرتی ہیں اور یہ سب صرف اس وقت یہ ممکن ہو سکتا ہے جب ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے حکومتی ادارے اور عوام دونوں مل کر کام کریں۔
یہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس سے سو فی صد نہ سہی لیکن کم سے کم پچاس فی صد نتائج ضرور حاصل ہونگے جو ملک کی ترقی میں یقیناً معاون ثابت ہونگے اور ہمارا ملک بھی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جائے گا اور بے روزگاری میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔