اے ڈی آر ، ڈی آر سی، اور ضم اضلاع کے بیچارے عوام
مولانا خانزیب
پشتو کی ایک کہاوت ہے مار چیچلی د پڑی نہ ہم یرہ کیگی ( سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے ) ماضی میں خیبر پختونخوا کے نئے اضلاع میں مملکت خداداد کے کرتا دھرتاؤں اور خاص کر سول و ملٹری بیوروکریسی کی بدنیتوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اتنی بربادیاں محرومیاں اس خطے کے ایک کروڑ پختونوں کے قسمت میں پچھلے 74 سال سے آئی ہے کہ اب یہاں کے باسی ان ریاستی اداروں کے سچ پر بھی باور کرنے کیلئے تیار نہیں۔
کل سے ان نئے اضلاع کے حوالے سے ( A D R ) (Alternative DisputeResolution ) کے نام سے جو حکمنامہ جاری کیا گیا ہے اس کے حوالے سے کچھ بنیادی سوالات تشنہ لب ہیں ۔
(1) صوبہ پختونخوا کے دیگر اضلاع میں 2014 سے عوام کو کم وقت میں سستا عدالتی انصاف ملنے کیلئے ( D R C) کے نام پر جو قابلِ اعتماد نظام چل رہا ہے اس کے بجائے ( A D R )کے نئے مشوش تعبیر سے بدلنے کی کیا ضرورت تھی ؟
(2) اس قانون کو بیوروکریسی کے فوری ایکٹ کے بجائے اسمبلی کے فلور پر ڈسکشن کرنے کیلئے کیوں نہیں رکھا گیا ؟
(3) نئے اضلاع میں لوگوں کی انصاف تک رسائی کے حوالے سے عدالتی انفراسٹرکچر اور دیگر وسائل دینے میں کیوں لیت و لعل سے اب تک کام لیا جارہا ہے ؟
(3) باجوڑ سے وزیرستان تک پولیس تھانوں میں بیٹھے ، ان پڑھ ، ایس ایچ اوز عدالتوں کے بجائے پچھلے دو سالوں سے تھانوں کے اندر کس مجاز حیثیت سے لوگوں کے جرگے اور فیصلے کررہے ہیں جبکہ ان تھانوں میں لوگوں کو عدالت سے ڈرانے اور بدل کرنے کیلئے منظم پروپیگنڈہ کس کی ایماء پر کیا جاتا ہے ؟
(4) پولیس اصلاحات این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں تاخیر بلدیاتی انتخابات کا عدم انعقاد اور ریاستی اداروں کیلئے انفراسٹرکچر کو بنانے میں تین سال سے کیوں تاخیر کی جارہی ہے ؟
(5) شمالی وزیرستان کو اس ایکٹ کی توسیع سے کیوں باہر کیا گیا ہے ؟
(6) حکومت اگر مخلص ہے اور ہمارے سیاسی نمائندوں میں کچھ اہلیت ہے تو وہ اس مخصوص صورتحال کے حامل جغرافیہ کو عدالتی و قانونی پیچیدگیوں میں ڈالنے کے بجائے اس علاقے کیلئے پچاس سال تک ٹیکسوں سے استثنیٰ اور گلگت بلتستان کی طرح دس سالہ ترقی کیلئے مخصوص مالیاتی پیکج کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ؟
اس جیسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو ان نئے اضلاع کے عوام کے ذہنوں میں گردش کررہی ہے کہ حکومت انضمام کے عمل کی تکمیل میں مخلص نہیں اور یہ سب کچھ اس تاریخی عمل کو رول بیک کرنے اور آٹے میں نمک کے برابر مراعات یافتہ طبقے کو خوش کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔
جدید متمدن ریاستوں میں کسی بھی نظام کو کامیابی سے چلانے کیلئے دو باتیں نہایت اہمیت رکھتی ہے ایک اس نظام سے متعلق قوانین سے لوگوں کو باشعور کرنا آگاہی دینا اور دوسرا لوگوں کا اس نظام پر اعتماد بڑھانا ۔
بدقسمتی سے تین سالوں میں نئے اضلاع میں اس حوالے سے حکومت نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ یہاں پر آنے والے سول آفیسرز نئے نظام کے حوالے سے درکار وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے گومگوں کی کیفیت کا شکار ہے نئے نظام اور اس کے وسائل کو جس قوت اور وسائل کیساتھ یہاں پر فی الفور عملاً لانے اور نفاذ میں جتنی کوتاہی کی گئی ہے اس کی وجہ سے مزید سماجی محرومیاں اور مشکلات جنم لے رہی ہیں پرانے نظام کی نہ تو کوئی خواہش ہے اور نہ ہی اسکی طرف پلٹنے کا کوئی امکان مگر حکومت کی ان علاقوں میں عدم سنجیدگی اور بیوروکریسی کی نئے نظام کے نفاذ کے حوالے سے بندنیتی وعوامی آگاہی میں عدم دلچسپی ایسے حقائق ہیں جن کا تدارک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب ان اضلاع کے پڑوس میں عالمی سطح پر سیاسی صورتحال تبدیل ہورہی ہے مستقبل قریب میں ممکنہ مشکلات سے بچنا اور ان علاقوں کو ملک کے باقی خطوں کی طرح ترقی کی راہ پر ڈالنا ملکی نظام کے ساتھ چلنے میں پنہاں ہے۔
انضمام کے وقت اگر یہ مراعات یافتہ طبقہ اس علاقے کیلئے کچھ خصوصی امتیازات اور مراعات کا مطالبہ کرتے تو اس وقت آئین میں سب کچھ ممکن تھا مگر چونکہ ان لوگوں کو صرف اپنے مفادات کی فکر لگی تھی اور اب بھی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان نے ان لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر انکو ویرانے میں چھوڑا اور ان لوگوں کے لاشعوری پر خوب سیاست چمکائی ۔
اس علاقے میں اب جو کچھ بھی ہوگا وہ ملک کے دیگر قوانین اور آئین کی روشنی میں ہوگا اگر ہم صوبہ پختونخوا کے باقی علاقوں میں اگر دیکھے تو وہاں پر عدالتوں پر بوجھ کم کرنے اور چوٹھے موٹے مقدمات کو کم وقت اور کم مالی وسائل میں حل کرنے کیلئے ڈسٹرکٹ کے لیول سے لیکر تھانوں کی سطح تک اصلاحی کمیٹیاں جرگے ، ڈی آر سی ،کے نام سے 2014 سے بنائی گئی ہے اور وہ کافی حد تک اپنے آئینی حیثیت کے اندر اچھا رزلٹ بھی دے رہی ہیں ۔
ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل(DRC)خیبر پختونخوا پشتون کلچر کا ایک حصہ ہے جس نے پختونوں کے روایتی جرگہ سسٹم (نظام) کو مزیدفعال بناکر مظلوم عوام کیلئے محافظ کا کردار ادا کیا ہے عوام الناس کی باہمی تنازعات کو بلا معاوضہ اور افہام و تفہیم سے بروقت حل کرکے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہونے سے قبل روکنے میں ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل(DRC)کا کلیدی کردار رہا ہے ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل کو مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے جس کے غیر جانبدار اور شفاف فیصلوں کو عدلیہ بھی احترام کی نظر سے دیکھتی ہیں ڈی آر سی کے مصالحتی اقدامات عوامی مفاد، قیام امن اور انسانیت کے تحفظ کے لئے ایک قیمتی آثاثہ ہے۔
یہ مصالحتی کونسلیں خاندانی دشمنیوں، زمینی تنازعات سمیت مختلف مسائل کو ختم کرنے میں مددگار رہی ہیں لیکن ان جرگوں یا کمیٹیوں کے فیصلے اس وقت عدالتوں یا سرکاری اداروں میں قابل قبول ہونگے جب دونوں فریقین اسے تسلیم کریں جبکہ عدالتی نظام اپنی جگہ پر فعال ہوتا ہے وہاں تک جانے میں کسی پر کوئی قدغن ڈی آر سی کی وجہ سے نہیں ہوتا اسی عدم مصالحت کی صورت میں ڈی آر سی فیصلہ کے بجائے فریقین کو عدالت بھجتی ہے۔
عدالتی نظام میں بہت ساری پیچیدگیاں ہوتی ہیں اور مقدمات کو طول دینے کے عجیب عجیب طریقے ہوتے ہیں۔ کبھی ایک وکیل موجود نہیں، کبھی ہڑتال، کبھی میڈیکل کا مسئلہ، کسی مقدمے کے دوران درخواست دی جاتی ہے جس پر تمام کارروائی روک کر بحث ہوتی ہے۔ مقدمے پر حکم جاری ہونے کے باوجود دوسری عدالت میں اپیل کر دی جاتی ہے۔ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہوتا ہے، مقدمہ بازی میں ملوث افراد ذہنی مریض بن جاتے ہیں کبھی بابوں اور مزاروں سے دم کرواتے ہیں، کبھی تعویذ گنڈوں کا سہارا کیا جاتا ہے۔
پختونخوا کے نئے اضلاع باجوڑ سے لیکر وزیرستان تک 27 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے رقبے پر مشتمل ہے کچھ ایک کروڑ پختون یہاں پر آباد ہیں جبکہ ( جیو پولٹیکل اہمیت ) اس جغرافیہ کی زمانوں سے لیکر آج تک انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد 71 سال تک بھی یہاں کے باسیوں کو مملکت خداد میں سیاسی معاشی آئینی انسانی اور ہر طرح کے شہری حقوق سے مخصوص مقاصد کے حصول اور افغانستان میں ( تزویراتی گہرائی ) کے حصول کی خاطر محروم رکھا گیا جس کی نتیجے میں یہ علاقہ انگریز کی استعماری پالیسیوں کی طرح ایک بفر زون کے طور پر رکھ کر استحصال کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک کروڑ انسانوں کے اس( سب جیل ) میں بیشمار انسانی المیوں نے جنم لیا جس کا خمیازہ پاکستان سے لیکر افغانستان تک کے لوگ اب تک بگھت رہے ہیں۔
31 مئی 2018 کو سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات کی بنیاد پر آئین میں 25 ترمیم کرکے ،ایف سی آر ، کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور یہ علاقے صوبہ پختونخوا کا آئینی طور پر حصہ بن گئے جبکہ اس پسماندہ علاقے کو ملک کے دیگر علاقوں کیساتھ ترقی کے سفر میں برابر کرنے کیلئے آئین میں کچھ وعدے کئے گئے ۔چونکہ ماضی میں پولیٹیکل ایجنٹ کے ذات میں اختیارات کے بی ہنگم ارتکاز کا،ٹرائیکا ، جمع ہوا اس لئے سب سے زیادہ اہمیت عدالت اور اس کے اختیارات کی یہاں تک رسائی تھی۔
ماضی میں مغل ایمپائر سے لیکر برٹش ایمپائر تک نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر یہاں پر ایک مراعات یافتہ طبقے کو تخلیق کیا تھا جو پاکستان بننے کے بعد بھی برقرار رکھا گیا۔وہ طبقہ صوبے کیساتھ انضمام اور اپنے مراعات کے چھن جانے پر ابتک ناراض ہیں جبکہ انکی ناراضگی اب ایک پروپیگنڈہ میں بدل گئ ہے جو اس نئے نظام سے عوام کو بددل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔مگر چونکہ نظام سے مستقبل میں عام عوام مستفید ہونگے اس لئے ان لوگوں کی آواز اب دب گئ ہے۔
ایک پروپیگنڈہ جو کیا جارہا ہے کہ نئے نظام کے آنے سے جرگہ اور ہماری روایات ختم ہوگئ ہیں انتہا ئی نامعقول اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہے۔
جرگہ نظام پختون ولی کی بنیادی اکائی ہے جو ، آزاد اولسی جرگہ ، ہے وہ ہزاروں سال سے رائج ہے اب بھی ہے اور مستقبل میں بھی فعال رہیگا ۔ہاں جو جرگہ ماضی میں پولٹیکل انتظامیہ کے زیرِ سایہ تھا وہ جرگہ اور انکے فیصلے ہمارے روایات پر سیاہ داغ تھے اس جرگہ نے ہمارے جرگہ کلچر کو بدنام اور رسوا کیا تھا سول افسران کیساتھ ایک مخصوص مراعات یافتہ کلاس انصاف اور عدل کے نام پر ہر روز پختون روایات کا گلہ گھونٹتے تھے ہر ملک اور آفسر کا اپنا اپنا ریٹ مقرر تھا اور وہ بھیڑ بکریوں کی طرح بکھتے تھے نئے نظام کے آنے سے وہ جرگہ یقیناً ختم ہوا ہے اور اسکو ختم ہونا چاہیے تھا۔
اب جو صوبائی حکومت کی طرف سے نیا ایکٹ جاری ہوا ہے اس کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے پولیس کی سرپرستی میں عوام کے معاشرتی، مالی، معاشی اور زمینی تنازعات کے حل کرنے کیلئے قائم کی گئی مصالحتوں کونسلوں کو ضم اضلاع تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔
ٹرائبل اینڈ ہوم ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کی طرف سے اے ڈی آر کے نام پر ایکٹ کو جاری کیا گیا ہے۔ جو پختونخوا کے نئے چھ اضلاع ،باجوڑ ، مومند ،خیبر ، جنوبی وزیرستان، اور، اورکزئی، میں اے ڈی آر (Alternative) DisputeResolution ) کے نام پر فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ ضلع شمالی وزیرستان اس میں شامل نہیں۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ اور قبائلی امور کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں خاندانی دشمنیوں اور جھگڑوں کو حل کے قانون ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل ایکٹ (ڈی آر سی ایکٹ 2020 ) کو قبائلی علاقوں تک توسیع دے دی گئی ہے جس تحت قبائلی اضلاع کے تمام اضلاع میں ضلعی مصالحتی کونسلیں قائم کی جائیں گی۔
صوبائی حکومت کے بقول مصالحتی کونسلیں کے قیام کے بعد خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں بہترین کام انجام دیتی رہی ہیں اس لئے انہیں ضم اضلاع تک توسیع دینے کافیصلہ کیا گیا۔
پولیس کی زیرسرپرستی عوام کے معاشرتی تنازعات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے مئی 2014 میں ( D R C) ڈسپیوٹ ریزولیوشن کونسل‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ ابتداء میں پشاور کے دو پولیس اسٹیشنوں میں یہ کونسل بنائی گئی تھی تاہم اس کی کامیابی کے بعد حکومت نے نہ صرف اس کا دائروسیع کرتے ہوئے صوبے کے تمام اضلاع میں ان کے قیام عمل میں لایا گیا بلکہ ان مصالحتی کونسلوں کو باقاعدہ ایک قانونی شکل بھی دے دی گئی ۔
مصالحتی کونسل کے لیے کیمونٹی سے قابل احترام ، غیر متنازعہ، دانشور، ریٹائرڈ سول افسران، ماہرین تعلیم، تاجر، وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا انتحاب کیا جاتا ہے جو کہ رضاکارانہ طور پر لوگوں کی بھلائی کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ کونسل لوگوں کے تنازعات کو سنتے ہیں اور باہمی مشاورت کے بعد مختلف قسم کے تنازعات ا س پر فیصلے کرتے ہیں۔یہ ایکٹ کتنا مؤثر ہوگا اور کتنا چلے گا یہ آنے والا وقت بتائیگا۔