وزیرستان میں عید ، مذہبی جنونیت اور اسلام سے بے خبری کی بڑی دلیل
مولانا خانزیب
پاکستان میں رمضان و عید کے رویت ہلال کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ دیگر اکثر اسلامی ممالک کی طرح یہاں بھی اس کو سعودی عرب کے اعلان کیساتھ جوڑا جائیں افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک میں آج تک مسئلہ نہیں ہے جب ریڈیو کابل سے اعلان ہوتا ہے تو سارا ملک اس کے تابع ہوتا ہے کیونکہ وہ سعودی عرب کیساتھ کئ دہائیوں سے روزہ اور عید مناتے ہیں سعودی عرب کے ساتھ عید منانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں بلکہ اختلاف مطالع کی بنیاد پر دو گھنٹے کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا جبکہ اختلاف مطالع واقع تو ہے مگر جہاں تک ممکن ہو عدم اعتبار کے قول میں ایک وحدت کا پیغام ہے اور موجودہ وقت میں پاکستان میں اس مسئلے نے مذہبی سے زیادہ حکومتی انتظامی حکم کی حیثیت حاصل کی ہے جس سے ہر سال فتنہ کھڑا ہوتا ہے جب شرعاً کسی چیز میں گنجائش ہو تو اس کے اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے حنفی، حنبلی اور مالکی مذاہب کے آئمہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں کرتے اور ان کا یہ ارشاد ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آنے کا ثبوت ہو جائے تو باقی دنیا کے لیے اس کی پابندی ضروری ہو جاتی ہے۔
البتہ شافعی فقہ کے آئمہ اور احناف میں سے امام زیلعی اور سید انور شاہ کشمیری اختلاف مطالع کا اعتبار کرتے ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ جہاں چاند دیکھنے میں ایک دن کا فرق پڑ جائے وہاں مطالع کا اختلاف معتبر ہے اور ایک جگہ چاند نظر آنے سے دوسری جگہ کے لوگوں پر روزہ اور عید لازم نہیں ہوتے۔
پاکستان میں اہل سنت کے تینوں مکاتب فکر یعنی بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے اکابر علمائے کرام نے صراحت کی ہے کہ ان کے نزدیک مطالع کا اختلاف شرعاً معتبر نہیں ہے اور دنیا میں کسی ایک جگہ بھی چاند کا شرعی ثبوت مل جانے کی صورت میں باقی ساری دنیا کے مسلمان اس کے پابند ہو جاتے ہیں۔
فقہ حنفی کی رو سے بلاد قریبہ میں اختلاف مطالع معتبر نہ ہوگا۔ حنفی مسلک کے معتبر کتاب بدائع الصنائع میں ہے: ہذا إذا کانت المسافة بین البلدین قریبة لا تختلف فیہا المطالع۔
اختلاف مطالع کا عدم اعتبار وہاں پر ہے جہاں بلاد قریب ہونے کی وجہ سے مطلع مختلف نہ ہو علامہ شامی کے مطابق بلاد قریب کا تخمینہ ایک مہینہ کے سفر سے متحقق ہے۔
پاکستان کی رویت ہلال کمیٹی اپنا اعتماد کھو چکی ہے جبکہ وزیرستان اور مسجد قاسم علی خان کی طرح غیر ذمہ دار مقامی کمیٹیاں پوری دنیا میں اسلام کے ساتھ پختونوں کے جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہے ( یہ بات یاد رہے کہ ایک علم فلکیات کی رو سے چاند کی پیدائش ہے اور ایک اس کی رویت ! نقلا چاند کی پیدائش پر جب سترہ گھنٹے گزر چکے ہو وہ صبح نظر نہ آیا ہو کیونکہ بقول شبیر کاکاخیل علامہ شامی سے صبح کے چاند کے رویت کے حوالے سے اشتباہ ہوا ہے تب غروبِ آفتاب سے متصل کچھ لحظوں کیلئے اسکی رویت ممکن ہوتی ہے وزیرستان والوں نے ساری دنیا سے ہٹ کر ایسا کیا عمل کیا ہے جس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے اس طرح کے اقدامات پختونخوا کے نئے اضلاع میں مذہبی جنونیت اور اسلام سے بیخبری کی بڑی دلیل ہے سائنسدانوں کے مطابق کل شام کو چاند پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو اس کو ابر آلود مطلع میں کس طرح دیکھا گیا ؟ سوال یہی بنتا ہے کہ جدید دنیا کے وسائل و معلومات سے دور وزیرستان کے ایک گاؤں میں کس طرح چاند کی رویت ثابت ہوتی ہے اور وہ ساری دنیا سے ہٹ کر ایک جزیرے میں بند عید کا اعلان کرتے ہیں جبکہ وہاں کے کچھ سیاسی لوگ بھی اس نامعقول خبر کو بڑے فخر کیساتھ شیئر کرتے ہیں جب کل دنیا کے کسی بھی کونے میں عقلا ونقلا چاند کی رویت عدم پیدائش کی وجہ سے ممکن ہی نہیں تھی تو کس طرح اس وہاں کچھ بندوں کی رویت ممکن ہوسکتی ہے ؟ جبکہ روزے بھی انتیس تھے تو پھر کس بنیاد پر ان چند شہادتوں کو قبول کیا گیا؟ کیا یہ ہمارے دین و دنیا سے رہبانیت کے گھڑے میں کھڑے ہونے کی دلیل نہیں ہے ؟ کیا اس طرح کے اقدامات سے پختونوں کا بحیثیت قوم چہرہ مسخ نہیں ہوتا ؟ ) مجمع الفقہ الاسلامی کے اجماعی فیصلے کے مطابق اگر ماہرین فلکیات یہ کہہ رہے ہوں کہ فلاں دن چاند سورج غروب ہونے سے پہلے ہی غائب ہوجائیگا ایسی حالت میں کسی کا یہ کہنا کہ اس نے چاند دیکھا ہے قابل قبول نہیں ہونا چاہیئے۔میری سوچ یہ ہے کہ دن میں چانددیکھنے کا دعویٰ کرنیوالا وہم کا شکار بھی ہوسکتا ہے جس طرح ایک بزرگ صحابی حضرت انس کے ساتھ ہوا تھا کہ وہ اپنے آنکھ میں لٹکے ابرو کے بال کو چاند سمجھ رہے تھے جب کسی نے وہ بال ہٹایا تو کچھ بھی نہیں تھا کیونکہ اس طرح کی شہادتوں میں دروغ بیانی کا احتمال بھی اپنی جگہ قائم ہوتا ہے لیکن اگر چاند کی پیدائش ہوئی ہی نہیں ہے تو ایسی صورت میں شہادتوں کا قبول کرنا انتھائی بے علمی اور جہالت کی دلیل ہے۔
ہلال کی رویت کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں ہیں جنکو سمجھنا ہر ایک کیلئے لازم ہے ۔
علم فلکیات کائنات کے سائنسی مشاہدات کے حوالے سے ایک قدیم علم ہے جنکی اہمیت آج کے جدید ترین سائنسی دور میں بھی مسلم ہے جبکہ اس علم میں اتنا زیادہ کام ہزاروں سال بطلیموس سے لیکر البیرونی الکندی اور کوپر نیکس سے آج تک ہوا ہے کہ آج بھی اس علم کے قدیم ترین اصولوں سے استفادہ کیا جاتا ہے جنمیں مسلم ماہرین فلکیات کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔
اسلام نہ تو ان دنیاوی علوم کی اہمیت سے انکار کرتا ہے اور نہ ہی اس سے بطورِ معاون و رہنمائی لینے کو ممنوع رکھتا ہے ۔
چاند کے حوالے سے شریعت نے رویت کا لفظ استعمال کیا ہے جو آنکھ کی رویت میں حقیقت اور دوسرے حواس و والات کے ذریعے حاصل ہونے والے علم میں مجاز ہے۔ چاند کی 28 منزلیں ہیں۔ روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر دو راتیں غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے۔برہنہ آنکھ سے چاند دیکھنے کے لیے سورج اور چاند کے درمیان زاویہ کم از کم 10.5 ڈگری اور سترہ گھنٹے کا وقفہ ہونا چاہیے۔ اتنا زاویہ حاصل کرنے کے لیے چاند کو اپنی پیدائش کے بعد 17 سے 24 گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔
لہٰذا چاند نظر آنے کے لیے بنیادی شرط اس کی عمر نہیں، بلکہ زاویہ ہے۔ جب یہ چاند آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہوجاتی ہے ، چاند کی انہیں گردشوں سے سکان ارض اپنے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں۔زمین کی محوری گردش 23 گھنتے، 54 منٹ اور 4 سیکنڈ پر مشتمل ہے جبکہ اس کا سورج کے گرد گھومنے کا دورانیہ 356 دن، 5 گھنٹہ، 4 منٹ اور 46 سیکنڈ ہے۔ زمین کا مدار (سورج کے ارد گرد) تقریبا سات کروڑ میل طویل ہے۔ چاند سے زمین کی اوسط دوری 2 لاکھ 40 ہزار میل ہے۔ چاند زمین کے گرد 29 دن، 12 گھنٹے 14 منٹ اور 2. 7 سیکنڈ میں گھومتی ہے۔ زمین کے گرد چاند کے مدار کی مسافت 13. 500.,73 میل ہے۔
چاند بعض اوقات طلوع ہو جاتا ہے لیکن نظر نہیں آتا کیونکہ آپ کے علاقے کے طول اور عرض بلد کی وجہ سے اور شفق کی سرخی کے دورانیے کی وجہ سے اس کا اینگل اور زاویہ وہ نہیں بن رہا ہوتا کہ اس پر سورج کی لائٹ پڑے اور آپ کو چاند نظر بھی آئے۔ آسان الفاظ میں چاند کے بارے دو باتیں اہم ہیں؛ ایک اس کی پیدائش اور دوسرا اس کی رؤیت۔ مہینے میں دو مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سورج، چاند اور زمین ایک لائن یعنی سیدھ میں آ جاتے ہیں۔ جب زمین، چاند اور سورج کے درمیان ہو تو چودہویں کا چاند ہوتا ہے۔ اور جب چاند، زمین اور سورج کے درمیان ہو تو عموما اٹھائیسیویں رات ہوتی ہے اور اس وقت میں چاند مکمل طور غائب ہو جاتا ہے۔
یہ لمحے بھر کا وقت ہوتا ہے جیسا کہ زوال کا وقت لمحے بھر کا ہوتا ہے۔ تو اس لمحے کو اصطلاح میں ،قران ،کہتے ہیں۔ اس کے بعد سائنسی اعتبار سے نیا چاند پیدا ہو جاتا ہے۔ قران کبھی ستائیس اور کبھی انتیس دن کا بھی ہو جاتا ہے یعنی یہ امکان ہوتا ہے کہ کبھی چاند ستائیس دن بعد ہی پیدا ہو چکا ہو یعنی طلوع ہو چکا ہو۔ لہذا جب یہ انتیس کو نظر آئے گا تو سائز میں بڑا ہو گا۔ اور کبھی ،قران ، انتیس کا ہوتا ہے یعنی چاند کی پیدائش ہی انتیس دن بعد ہوتی ہے لہذا اگر اگلے دن یعنی تیس کو بھی چاند نظر آئے گا تو سائز میں چھوٹا ہو گا۔ یہ واضح رہے کہ ساری دنیا میں چاند کی پیدائش یعنی طلوع کا وقت ایک ہی ہوتا ہے البتہ اس کی رویت ہر علاقے کے عرض اور طول بلد کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے۔
آج سے چند سال پہلے سعودی عرب میں رابطۃ العالم الاسلامی کے ، مجمع الفقہ الاسلامی ، کے زیرِ اہتمام چاند کے رویت کے حوالے سے ایک علمی کانفرنس ہوا تھا جسمیں دیگر بہت سی امور کے ساتھ یہ بھی طے پایا تھا کہ اسلام چونکہ قطعیات کی مخالفت نہیں کرتا اور جدید ترقیوں سے استفادہ کی تلقین کرتا ہے اسلئے ایک طرف جہاں ان شرعی نصوص کی پابندی ضروری ہے جن میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ کھولنے کی ہدایت کی گئی ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ جدید فلکیات کی روشنی میں چاند نظر آنے کے امکان اور عدم امکان کا جائزہ لیا جائے اور حسابات کی روشنی میں اگر قطعیت کیساتھ یہ کہا جائے کہ علمی وسائنسی تحقیقات کی رُو سے چاند کے نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تو پھر چاند دیکھنے کی شہادت دینے والے کی گواہی کو مسترد کردیا جائے گا۔
فلکیات کا حساب ایک اہم اور مستقل علم ہے اور اسکے اپنے اُصول وضوابط ہیں اور پچھلے زمانوں میں مسلمانوں کا اس علم کی ترقی میں زبردست اثر رہا ہے۔ مسلمان فقہاءکو بھی اس علم سے دلچسپی رہی ہے چنانچہ اس علم کے ذریعے چاند کے بارے میں حاصل ہونے والی بعض معلومات کا لحاظ کرنا ضروری ہے جیسے سورج اور چاند کے درمیان اقتران( یعنی نزدیک یا پاس ہونا)، قرص شمس سے پہلے چاند کے غائب ہونے کا مسئلہ اور اس بات کا علم کے اقتران کے بعد آنے والی رات میں چاند کی بلندی ایک درجہ کی ہوگی یا 2 درجہ اور اس سے زیادہ کی لہذا عینی رویت ہلال کی شہادت کو قبول کرنے کیلئے یہ بات بھی ضروری ہوگی کہ حسابی حیثیت یا فلکیاتی علم کی رُو سے چاند کا دیکھا جانا ناممکن نہ ہو۔ مثال کے طور پر سورج سے پہلے ہی چاند غروب ہوجائے یا سرے سے اقتران ہی نہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں فلکیات کے ماہرین کی رائے میں چاند کا نظر آنا ممکن ہوتا ہے۔
چاندزمین کے گردناقص مدار میں گردش کرتاہے ،ان کے مرکزوں کا اوسط فاصلہ تقریباً 238857میل ہے چونکہ چاند کی محوری گردش اور زمین کے گرد اس کی مداری گردش کی مدت مساوی ہے اس لئے چاند کا ہمیشہ ایک ہی رخ زمین کے سامنے رہتاہے لیکن چاند کے ترقصّ جھولنے کی حرکت (liberation)کی وجہ سے اس کی سطح کا تقریبا ً 59فیصد ہر مہینے نظر آسکتاہے چاند کی شکل کی ظاہری تبدیلیاں چاندکی جگہ کے زمین اورسورج کے تعلق سے تبدیل ہوجانے کے باعث اس کی مرئی سطح میں کمی بیشی پیدا ہوجانے سے واقع ہو تی ہیں ،ہلالی صورت اس وقت نظر آتی ہے جب چاند، سورج اورزمین کے درمیان ہو اور پوراچاند اس وقت د کھائی دیتاہے جب زمین سورج اور چاند کے درمیان ہو ،مہینہ چاند کی گردش سے ناپاجاتاہے۔ کوکبی مہینہ (sidereal month) وہ مدت ہے جوچاند کے کسی اور ستارے کے ساتھ اقتران کے توالی (recurrence) میں حائل ہوتی ہے (اوسطاً 27.3یوم) قمری مہینہ (sinodic month) وہ مدت ہے جو سورج کے اعتبار سے چاند کے پھر اسی پہلی جگہ پہنچنے میں درکار ہوتی ہے (مثلاً ایک ہلال سے دوسرے ہلال تک کی درمیانی مدت ) یہ تقریبا ً 29.5یوم ہے، کوکبی اور قمری مہینے کا فرق زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے جو زمین کو سورج کے گرد اپنے راستے میں آگے لے جاتی ہے اور چاند مغرب کی جانب حرکت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے ، زمین کے گرد چاند کی مدارکی چاند کو صُورِ سماوی کے اعتبار سے مشرقی جانب حرکت دیتی نظر آتی ہے چونکہ مشرقی جانب یہ ظاہری حرکت سورج کی ظاہری حرکت سے زیادہ تیز ہوتی ہے اس لئے چاند ہر شب اوسطاً 50.5منٹ دیر سے طلوع ہوتاہے ۔
پاکستان کے رویت ہلال کمیٹی کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ نے بڑے پتے کی بات کہی تھی۔
پہلا ادارہ رویت ہلال کمیٹی ہے جو خزانے کے لیے رویت حلال کمیٹی بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا مقصد آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ سوائے اس کے کہ کچھ مولانا حضرات کو اس کا ممبر بنا کر بے شمار مراعات عطا کر کے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ، ہوٹلوں میں قیام، کاریں اور باقاعدہ تنخواہیں دے کر ان کی آتش مزاجی کو ذرا دھیما کرنا ہے۔