قبائلی اضلاع: دہشت گردی سے خونریز زمینی تنازعات تک
کائنات علی
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد دہشت گردی میں بہت کمی آئی ہے اور اس کا سہرہ پاکستان آرمی اور دوسرے سیکورٹی اداروں کو جاتا ہے جن کی بے شمار قربانیوں سے آج امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے۔
لیکن اگر ایک طرف دہشت گردی کا گراف نیچے آیا ہے تو دوسری طرف خونریز زمینی تنازعات میں روز بروز اضافے نے ایک بار پھر امن و امان کی صورتحال کو خراب کیا ہے اور اب تک درجنوں لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ان تنازعات کو حل کرنا اور مختلف گروپوں کو میز پر لانا لوکل ایڈمنسٹریشن کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
فاٹا انضمام قبائلی عوام کو مزید خوار کرنے کیلئے کیا گیا
وانا، زلی خیل قبیلے کی مقامی تھانوں کے سامنے احتجاج کی دھمکی
ایک اندازے کے مطابق اب تک درجنوں افراد ان تنازعات میں قتل ہوئے ہیں اور سات میں سے پانچ قبائلی اضلاع بشمول شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، کرم، مہمند اور باجوڑ اب تک اس خطرناک اور بظاہر نہ ختم ہونے والے جنگ کے لپیٹ میں ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سماجی ورکر احمد خان وزیر کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں ان نا ختم ہونے والے زمینی تنازعات کی سب سے بڑی وجہ زمینوں کے ریکارڈ کی عدم دستیابی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک شفاف نظام کے تحت ایک مکمل نظام عمل میں لانا چاہئے جو ان تنازعات کو ختم کرنے میں مدد کرے، احمد وزیر نے کہا کہ پہلے دہشت گردی کی وجہ سے لاکھوں قبلائی اپنے گھر بار چھوڑ کر متاثرین بنے اور اب جب حالات ٹھیک ہو گئے تو زمینی تنازعات نے قبائلی لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا۔
اس کا کہنا تھا کہ وعدوں کے باوجود حکومت اصلاحات لانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ایک اور سماجی ورکر عرفان محسود کا کہنا تھا کہ حال ہی میں دوتانی اور وزیر قبائل کے درمیان زمینی تنازعے پر خطرناک جھڑپوں نے حکومتی رٹ کو ایکسپوز کر دیا، ”ان تنازعات کی وجہ سے بہت سے بے گناہ لوگ قتل ہوئے ہیں۔”
عرفان کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی اور سیکورٹی فورسز نے تو دہشت گردوں کو شکست دے کر اپنا کام کر دیا لیکن اب حکومت کی باری ہے کہ اصلاحات لا کر امن قائم کر سکے۔
ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے ابرار خان، جو کہ پیشے سے ایک وکیل ہیں، کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع ضم ہونے کے بعد حکومت کا پہلا کام لینڈ ریفارمز لانا تھا جس میں صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضم ہونے سے پہلے سارے تنازعات جرگہ کے ذریعے حل ہوتے تھے لیکن ضم ہونے کے بعد اب ضلعی عدالتوں کو اختیارات دے دیئے گئے ہیں اور عدالت ہمیشہ ثبوت مانگتی ہے تو یہی وجہ ہے کہ لوگ عدالتوں سے رجوع نہیں کرتے۔
ابرار خان کا کہنا تھا ماضی میں قبائلی لوگ کسی کاغذ یا سٹامپ پیپر کے بغیر زمینوں کی خرید و فروخت کرتے تھے جس کی وجہ سے آج یہ حالات ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قبائلی اضلاع میں زمینوں کے تنازعات کو فوری طور پر حل کرنا چاہیے کیونکہ ان حالات سے شر پسند عناصر فائدہ لے سکتے ہیں۔