بلاگز

‘سادہ پہنا کرو فیشن ایبل کپڑے بھائی کو پسند نہیں ‘

سدرا آیان

میری نظر میں ”عورت”  ایک ایسا موضوع ہے جس پر اگر کوئی بندہ بیٹھ کر سالہا سال لکھتا رہے تب بھی اسکی قلم نہیں  روکے گا ۔ عورت موضوع پر بات کرنا یا لکھنا میرے لیے ایسا ہے کہ اک اک لفظ لکھنے کے ساتھ میرے دل میں درد کی ٹھسیں اٹھتی ہے ۔کوئی میری بات سے  اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن عورت کی زندگی اتنی پیچیدگیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی پہیلیاں سلجھاتے سلجھاتے خود الجھ جاتی ہے ۔ میرے نزدیک ہمارے معاشرے میں دو قسم کی عورتیں ہوتی ہیں ۔ایک وہ جو ہمت ہار کر وہی زندگی قبول کرلیتی ہے جو زندگی اسے لوگ دینا چاہے اور ایک وہ جو ہمت سے کام لیکر وہ زندگی جیئے جو وہ خود جینا چاہتی ہے ۔

اک وقت تھا جب میں اس موضوع پر ہر کسی سے بحث کرتی تھی لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ ہمارے معاشرے کے ان لوگوں سے بحث کرنا کسی پتھر سے سر ٹھکرنے کے برابر ہے جو عورت ذات کو مانتے ہی نہیں۔ ایک دفعہ میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ آخر تم لوگوں کو کس چیز کی کمی ہیں  ۔ میں نے کہا آزادی ! آگے سے وہ کہنے لگا کہ تم لڑکیوں کو یورپ جیسا ماحول چاہیے جہاں بے پردگی ہو جہاں کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔ اسکی یہ بات سن کر مجھے کافی دکھ ہوا کیونکہ مجھے بے پردگی نہیں بلکہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینا چاہیے تھا ۔ پردے کا تو یہاں بھی مجھ پر کوئی پابندی نہیں لیکن پھر بھی اپنی مرضی سے ہی کسی بھی جگہ جاتے ہوئے تو پردہ کرتی ہوں۔ بقول بھائی ، میل کلاس فیلوز وغیرہ مجھے تین وقت کی روٹی گھر بیٹھے عزت سے ملتی ہے ۔ کپڑے مجھے گھر بیٹھے سلے ہوئے مل جاتے ہیں ۔ گھر والے اپنے ساتھ مجھے شادی جیسے تقریبات پر  بھی لے کر جاتے ہیں ۔

میری شادی تک میرے گھر والے میرے ذمہ دار ہیں  شادی کے بعد سسرال والے ۔ سب کو لگتا ہے یہ میری مکمل آزادی ہے اور مجھے اور کچھ چاہیے ہی نہیں  اور  نہ ہی  کچھ اور چاہنے کی ضرورت ہے۔

کیا میں کوئی غلام ہوں ؟ یا کوئی مجسمہ ؟ جس کو اس لئے بنایا گیا ہے کہ مرتے دم تک دوسرے لوگ میرے ذمہ دار ہو  ،     مجھے تین وقت کی روٹی ملتی ہے تو کیا میں آزاد ہوں؟ تین وقت کی روٹی تو گھر میں پالتو جانور کو بھی مل جاتی ہے ۔ کپڑا دیکر کیا مجھ پر انکا احسان ہوتا ہے ؟ کپڑے تو لوگ راہ چلتے بکھارن کو بھی دیتے ہیں ۔ شادی اور دیگر تقریبات پر لے جاکر ان کو لگتا ہے انہوں نے مجھے ہر خوشی دیدی ۔ کل شادی کرواکے جہیز باندھ کر انکو لگے گا انھوں نے میرا حق ادا کردیا ۔کیا مجھ سے کسی نے پوچھا ہے مجھے کونسی آزادی چاہیے ؟ مجھے کونسی خوشی چاہیے ؟

میں چاہتی ہوں کہ ایک لڑکی اتنا پڑھیں جتنا وہ پڑھنا چاہتی ہے ۔ لڑکی اس فیلڈ میں جائے جس فیلڈ میں وہ جانا چاہتی ہے ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگر وہ نوکری کرنا چاہے تو کرے پھر شادی کے وقت ان سے اسکی مرضی پوچھ لے بجائے اسکے کہ آج خالہ کے بیٹے کا رشتہ آنے والا ہے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں لڑکا اچھا پڑھا لکھا ہے میٹرک پاس ہے محنت مزدوری کرکے جو بھی ہوگا تجھے کھلائے گا عزت سے رکھے گا ۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ عورت صرف کھانے کو پیدا ہوئی ہے باپ کے گھر بھی عزت سے روٹی مل رہی ہے شادی کے بعد سسرال میں بځي عزت سے روٹی مل رہی ہے اور کیا چاہیے تمھیں ؟

کیا ؟ عورت صرف کھاتی رہے گی ؟ اسے عزت سے روٹی مل تو رہی ہے مگر اس سے بدلے میں دوگنا قیمت وصول کیا جاتا ہے ۔ روبوٹ کی طرح دن بھر گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہے بغیر تنخواہ کے یا یہ جتا کر کہ خدا نے گھر اور اولاد سے نوازا ہے نا ۔ کیا یہ کافی نہیں ؟ دن بھر روبوٹ کی طرح کام کرنے کے بعد اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ تم کرتی ہی کیا ہو ۔ گھر ہی میں تو بیٹھی رہتی ہو ۔

کنواری ہو تو موبائل ہاتھ میں نہ لو بھائی کو پسند نہیں ، سادہ کپڑے پہنا کرو فیشن ایبل کپڑے بھائی کو اچھے نہیں لگتے ۔ سہیلی کی شادی میں مت جانا وہاں انکے خاندان کے لڑکے ہونگے بھائی کو پتہ چلا تو زندگی گاڑ دیگا ۔ جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا ہم اتنے بے غیرت نہیں کہ تمھاری کمائی کو بیٹھ جائے ۔ یہ جملہ تو تقریباً ہر دوسری لڑکی نے سنا ہوگا ۔ لیکن یہ جو عورت پہلے باپ بھائی بعد میں شوہر کی کمائی پر زندگی گزارتی ہے تو کیا وہ بے غیرت ہے ؟ یا غیرت نامی سہرا  صرف مردوں پہ جچتا ہے ؟دوسری بات یہ کہ کس نے مرد سے کہا ہے کہ وہ عورت کی کمائی پر پلے یا عورت اسکے لیے کما رہی ہیں ؟

عورت اپنے لیے نہیں کما سکتی کیا ؟ مرد کیا چاہتا ہے کہ عورت ہمشہ اس سے سامنے ہی ہاتھ پھیلائے؟ ہم جب بھی اپنی بیٹیوں کو بیاہتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بیٹی کو امیر گھرانہ ملے ۔ہم کیوں نہیں سوچتے کہ بیٹی کا سسرال جتنا بھی امیر ہو ہماری بیٹی ایک ایک چیز کے لیے انکی محتاج ہوگی ۔ میں اکثر اس بات کو لیکر سوچتی رہتی ہوں کہ آخر بیٹی کس چیزکا نام ہے ؟ یوں تو اپنے تقاریر میں ہم بہت  بڑھ چڑھ کر کہتے ہیں کہ بابا کی لاڈلی ، ماما کی شہزادی ،  بھائیوں کی پری  لیکن حقیقی زندگی میں ہم اس بات سے کوسوں دور ہے ۔ کیا عورت صرف اس لیے بنائی گئی ہے کہ اگر  مرد کا جھگڑا ہو تو گالی عورت کو ملے؟  اگر صلح ہو تو قیاس میں عورت کو دیدیں؟ غیرت دکھانا ہو تو عورت کوقتل کریں ؟ رعب جمانا ہو تو عورت سے اس کے حقوق چھیننے؟

ہمارے معاشرے کے مردوں کا ماننا ہیں کہ اگر عورت کو زیادہ پڑھائے لکھوائے تو اسکی زبان چلنے لگتی ہے ۔  زبان چلانا شروع نہیں کرتی اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں جو مرد کو ہر گز برداشت نہیں کیونکہ عورت کو آزادی ملی تو مرد کی آزادی ختم ہو جائیگی ۔ پھر مرد کے پاس غیرت دکھانے کے لیے کوئی بے زباں اور احساس سے عاری وجود نہیں ملے گا۔ پھر صلح کرنے کے لیے  قربانی کی کوئی بکری نہیں ہوگی پھر ہڑپنے کے لیے اسکے پاس کوئی جائیداد نہیں بچے گی ۔ دو وقت کی روٹی کے بدلے کوئی روبوٹ مشین نہیں رہے گا ،پھر کوئی مرد دوسری عورتوں سے تعلقات رکھ کر اپنی بیوی کو درد دے کر تسکین نہیں پا سکے گا تب مرد کی زندگی بہت مشکل ہوجائےگی اور یقیناً مرد کبھی ایسا نہیں چاہے گا ۔

بعض لوگ میری ان باتوں سے شائد اتفاق نہ کریں کیونکہ انکو لگتا ہے کہ فلم انڈسٹری میں دیکھو ادھر بہت سی خواتین ہیں ، بہت سے خواتین نے اپنی مرضی سے شادی کرلیں ۔ بہت سے خواتین سیاست کا حصہ بنیں اور کیا چاہیے تم کو تو ان کے لیے میرا جواب یہ ہیں کہ جو خواتین اپکو باہر نظر آرہی ہے اپنی پسندیدہ فیلڈ میں پسند کی شادی کرے تو انکو شائد اپنا حق مل گیا ہے یا انہوں نے محنت کرکے اپنا حق حاصل کرلیا ہے ۔ آپ خود سے اور اپنے گھر سے شروع کریں  کیا آپ نے دیا ہے اپنے گھر کے خواتین کو انکا حق؟

خدا کی رحمت ،گھر کا رونق ،آنگن کا چاند جیسے جملوں کی آڑ میں انکے خواہشات کو دبا کر انکی زندگی خود جی رہیں ہیں انکا کیا ۔ میں کبھی کبھی یہ سوچ کر حیران ہوجاتی ہوں کہ اگر مرد اپنی مرضی کا فیلڈ جوئن کرسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ؟ اگر مرد اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے تو عورت کیوں نہیں ۔  ہمارے لیے یہ لمحہء فکریہ ہے کہ جس عورت کی وجہ سے دنیا آباد ہے ہم اسی عورت کو اپنے ہی ہاتھوں سے زمین میں گاڑ رہے ہیں ۔  ہم بہن بیٹی چاہتے ہیں لیکن ضرورت کے وقت قرباں کرنے کے لیے ۔ ہم بیوی بہو  نہیں انکی شکل میں نوکرانی ڈھونڈتے ہیں کہ وہ چپ چاپ گھر کو سنبھالیں اور مرد کی نسل بڑھائے۔  ہم بھائی بیٹے کے لیے ایسی لڑکی ڈھونڈتے رہتے ہیں جو خوبصورت ہو، پڑھی لکھی ہو ،باشعور ہو ، سلیقہ ءشعار ہو، بند منہ سے گھر کے کام کاج کرتی ہو ، کسی کیساتھ پہلے کوئی سمبندھ نہ رہ چکا ہو ، سب اس پر چینخیں چلائے مگر اسکا دل اتنا بڑا ہو کہ چپ چاپ سنتی اور سہتی رہیں خیر ہے اگر اپنا بیٹا ان پڑھ جاہل گوارا ہو ، کوئی کام کاج نہ کرتا  ہو ، سارا دن نشے کرتا پھرتا ہو دوسری عورتوں کے پیچھے لگا رہتا ہو ۔ اور آج کل جو بیٹے والدین سے نہ سدھر جائیں  انکو سدھارنے کی ذمہ داری بھی بہو کو دی جاتی ہے ۔

میں یہ سوچ کر پریشان ہورہی ہوں کہ عورت جو آزادی چاہتی ہے پتہ نہیں دنیا اسے  کونسی آزادی سمجھتی ہے ؟ پتا نہیں ہم کب اس اندھیرے سے نکلیں گے ہم کب عورت کو انسان سمجھیں گے ۔لیکن مجھے ایک بات کا یقین ضرور ہے کہ مرد کبھی بھی خود کو ظالم کے لقب سے آذاد نہیں کر پائے گا جب تک وہ عورت کے معاملے میں انصاف نہ کریں ۔

عورت کی آزادی روٹی ،کپڑے ،مکان اور شادی کی نہیں جو تم اپنی سوچ سے دیتے ہو نہ وہ ذرائع عورت کی خوشیاں ہو سکتی ہے جو تم سمجھتے ہو ۔ انکے نزدیک شائد یہ خوشیاں نہیں بلکہ خوشیوں کے جنازے ہوں ۔ عورت ایک بہت خوبصورت رشتہ ہے اور انکو سمجھ کر انکی خوبصورتی حاصل کرکے ہم اپنی زندگی خوبصورت بنا سکتے ہیں ۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button