بلاگز

سکول پیدل جانے سے چھوٹی منتہا وزیر کے پیروں میں درد رہتا ہے

رضیہ محسود

منتہا وزیر ڈیرہ اسماعیل خان ایف ایم گلوبل کی ایک ایکٹو لسنرز اور کلاس چہارم کی طالبہ ہے، اس کا تعلق جنوبی وزیرستان کے علاقہ شکئی سے ہے۔

منتہا کے مطابق سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کے لئے اس کا گھرانہ وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل خان آیا ہے اور جس علاقے میں وہ رہتی ہے وہ ڈیرہ اسماعیل کے علاقے گرہ حیات کا ایک دور دراز گاوں ہے، منتہا روزانہ گرہ حیات کے گرل سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک گھنٹہ پیدل سفر کرتی ہے جس سے اس بچی کے تعلیم سے شوق کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

منتہا کے مطابق اس کی ٹانگوں میں پیدل سفر کرنے سے کافی درد رہتا ہے اور وہ ڈاکٹر کے پاس درد کی شکایت کے لئے اپنے والد کے ساتھ گئی تھی، جب منتا نے یہ سب ایف ایم گلوبل ڈیرہ اسماعیل خان کے آر جے وسیم انمول کو بتایا تو یہ سب کے لئے ایک دکھ کا باعث رہا۔

منتہا کے علاقے شکئی میں جو سکول ہے وہ اساتذہ کے ڈیوٹی نہ کرنے کی وجہ سے غیرفعال ہے جس کی وجہ سے انہیں تعلیم کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان آنا پڑا مگر غربت کی وجہ سے ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایسے دور دراز علاقے میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں گرہ حیات کے سکول تک جانے کے لئے ایک گھنٹہ پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔

منتہا شاید وہ بچی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہر درد ہر تکلیف برداشت کرتی ہے مگر ان مشکلات کو اپنی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیتی۔ یہ کہانی ایک منتہا کی نہیں بلکہ منتہا کی طرح وزیرستان کی ہزاروں بچیاں سکولوں کے غیرفعال ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم اور غربت کی وجہ سے تعلیم کا شوق دل میں لئے وہاں رہنے پر مجبور ہیں۔

اسی طرح پچھلے سال جنوبی وزیرستان علاقہ چگملائی کے گرلز ہائی سکول میں بچیوں نے سکول میں اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے دھرنا دیا تھا، ان کا نعرہ تھا کہ ہم سکول میں استانیاں گھر میں۔ مطلب بچیاں سکولوں میں روزانہ کی بنیاد پر حاضری دیتی ہیں، پڑھنے جاتی ہیں مگر استانیاں اپنی ذمہ داریوں سے لاپرواہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہی ہیں۔ ان بچیوں کا حکومت اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے سخت گلہ تھا جس کا اظہار وہ مختلف میڈیا چینلز سے بات کرتے ہوئے سخت الفاظ میں کر رہی تھیں اور وزیرستان کے ایم این اے اور ایم پی اے سے بھی ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے خفا تھیں کہ ہمارے منتخب نمائندوں نے بھی ہمارے اس جائز حق کے لئے ہمارا ساتھ نہیں دیا اور ہم چھوٹی بچیاں احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں بھی بچیاں سکولوں میں اساتذہ کے غیرحاضر رہنے کی وجہ سے اداس تھیں۔سراروغہ میں گورنمنٹ مڈل سکول کے غیرفعال ہونے کی وجہ سے وہاں کی بچیاں پرائمری پرائیویٹ سکولوں سے پاس ہونے کے بعد وزیرستان کی ثقافتی بندشوں کے باعث گرلز سکول کے فعال ہونے کا انتظار کرتے کرتے دل میں پڑھ لکھ کر اور کچھ بن کر علاقے کی خدمت کا ارمان دلمیں لئے پیا دیس سدھار گئیں مگر گرلز سکول فعال نہ ہو سکا اور استانیاں جو گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لینے کی عادی تھیں وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سکول حاضر نہ ہو سکیں۔

اہل علاقہ کا یہ کہنا ہے کہ یہاں پر سکولوں میں استانیاں گھر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہی ہیں یہ بااثر افراد کی بہوئیں، بیٹیاں ہیں اور یہ سکول بھی ان بااثر افراد کو حکومت نے دیئے ہیں اور یہ زمین بھی انہی لوگوں کی ہے جس کی وجہ سے ہم ان سکولوں کے غیرفعال ہونے پر بات نہیں کر سکتے، اگر ہم بات کرتے ہیں تو ہمارے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں، ہم پہلے سے غریب ہیں اور دہشت گردی کی جنگ نے مزید ہمیں مشکلات سے دوچار کیا ہے تو ہم مزید اپنے لئے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔

کچھ بچیاں اپنے والدین سے بھی گلہ کرتی ہیں کہ ہمارے والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں جبکہ ہم لڑکیوں کو یہ کہہ کر سکول نہیں بھیجتے کہ لڑکیاں گھروں کی دہلیز پر اچھی لگتی ہیں اور لڑکیاں پڑھ کر کون سا آسماں گرا لیں گی،لڑکیوں کو صرف گھر کا کام کاج سیکھنا چاہیے تاکہ سسرال جا کر وہ اچھے سے ان کی خدمت کر سکیں اور ساتھ میں ان کا یہ موقف بھی ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر پر بیٹھے رہنے کا حکم دیا ہے۔

وزیرستان میں جہاں سکول غیرفعال ہیں تو دوسری جانب وہاں کچھ لوگوں میں شعور کی بھی شدید کمی ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے، اسی طرح اگر اساتذہ کرام کی رائے لی جاتی ہے تو ان کا یہی موقف ہوتا ہے کہ جب سکولوں میں بچے بچیاں نہیں ہوتے تو ہم دیواروں کو نہیں پڑھا سکتے اور وزیرستان میں ہمارے لئے سہولیات نہیں ہیں اور کافی مشکلات ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہم وہاں پر اپنی ڈیوٹیاں سرانجام نہیں دے سکتے۔

شمالی وزیرستان میں ایک اندازے کے مطابق ٹوٹل سکول 894 ہیں جن میں 25 سکول تحصیل دتہ خیل میں ہیں جو کہ غیرفعال ہیں کیونکہ تحصیل دتہ خیل کے لوگ اب بھی متاثرین ہیں اور وہ اپنے علاقے واپس نہیں گئے، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نارتھ وزیرستان کے مطابق 15 سکول غیرفعال ہیں جن کو سٹاف مہیا نہیں کیا گیا اور ان کو سٹاف مہیا کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح جنوبی وزیرستان میں ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے مطابق ٹوٹل 745 سکول ہیں جن میں لڑکیوں کے سکول 280 اور 75 کمیونٹی سکول ہیں، وزیرستان میں تعلیم کے حوالے سے اب کافی آوازیں اٹھ رہی ہیں، چاہے شمالی وزیرستان ہو یا جنوبی وزیرستان وہاں کے لوگ بچیوں کی تعلیم کے لئے حکومت خیبر پختونخواہ سے وہاں پر موجود سکولوں کو فعال کرنے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ وہاں کی بچیوں کو منتہا کی طرح مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے جو ایک گھنٹہ پیدل سفر کرتے ہوئے تعلیم کو جاری رکھے ہوئی ہیں اور یہ ان لوگوں کے سوال کا جواب ہے جو کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کے لوگ بچیوں کو نہیں پڑھانا چاہتے یا قبائلی علاقے کے لوگ بچیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں۔ قبائلی علاقوں میں اب اکثریت اپنے بچیوں کو تعلیم کی روشنی دینا چاہتی ہے، سہولیات میسر ہوں تو شاید وزیرستان میں زنانہ تعلیم کی شرح کچھ ہی عرصہ میں خیبر پختونخواہ کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہو جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button