فیچرز اور انٹرویو

‘معاشرے کی اکثریت خواتین کو حقوق دینے سے انکاری ہے’

اسماء گل

دنیا بھر کی خواتین اپنے حال اور مستقبل کو دقیانوسی تصورات اور تشدد سے پاک چاہتی ہیں اور ان کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ایک مرد کی طرح انہیں بھی پائیدار، پرامن اور یکساں حقوق حاصل ہوں اور انہیں اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لئے مواقع بھی موجود ہوں۔ اس سوچ کے پیش نظر جہاں ایک طرف ہماری خواتین کو ہر فورم پراپنا لوہا منوانے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب فیصلہ سازی میں بھی ان کی شمولیت کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
اسی سوچ کو لے کر پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن کا رواں سال عنوان "خواتین کی قیادت، کویڈ-19 کے وقت دنیا میں مساوی مستقبل کا حصول” رکھا گیا ہے۔ اس کوشش کے پیش نظر ٹی این این نےمعروف سماجی کارکن و خواتین کے حقوق کی علمبردار شاد بیگم کے ساتھ خصوصی انٹرویو قارئین کی نظرکی ہے ملاحظہ کیجئے۔

سوال : خواتین کی حقوق کے حوالے حکومت کا کام کی جگہوں، کھیلوں، صحت عامہ، معاشی استحکام کے حوالے آپ کیا کہتی ہے ؟
شاد بیگم : گزشتہ چند سالوں سے حکومتی سطح پر خواتین کی حقوق کے لئے کوششوں کو ذاتی طور پر خوش آئیند سمجتھی ہوں۔ بلخصوص صحت، تعلیم، کھیل کی جگہوں پر یا معاشی حالات میں بہتری کیلئے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو ماضی کی نسبت لائق تحسین ہے اور یہ خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کی بھرپور کوششوں کی بدولت ممکن ہوا۔


وہ سمجھتی ہے کہ عالمی وباء کے باعث ایک سال سے زائد عرصہ سے خواتین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مختلف اعداد و شمار کے مطابق اب بھی خواتین کو صحت کی سہولت پوری طرح میسر نہیں، اسی طرح معاشی استحکام کے حوالے سے بھی خواتین کے پاس کاروبار کے لئے سرمایہ نہیں مارکیٹ تک رسائی میں بھی وہ کئی مشکلات کا شکار ہو رہی ہے، خواتین کو جدید خطوط سے آراستہ کرنے کے لئے مواقعے نہ ہونے کے برابر ہیں ایسی صورتحال میں ہم اس کو تسلی بخش صورت حال تو نہیں کہہ سکتے البتہ جن شعبوں میں بہتری کے اثرات نظر آ رہے ہیں تو اس کو سراہا جاسکتا ہے۔
سوال : خواتین کودرپیش مسائل میڈیا پر اجاگر کرنےکے حوالے سے آپکی کیا رائے ہے ؟
شاد بیگم : ابلاغ عامہ (میڈیا ) میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے متعلق میں خود تو مطمین نہیں ہو لیکن عورتوں کو درپیش مسائل میڈیا پر سامنے لایا جائے تو یقیناً حکام بالا اس کا نوٹس ضرور لیتی ہے، عورتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات سوشل میڈٰیا پر سامنے آنے کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی پہلے سے زیادہ اس پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں جو خوش آئند ہے۔

سوال : ہمارے معاشرے میں صنفی مساوات کے حوالے سے آپ کاکیا نظریہ ہے ؟
شاد بیگم : ہمارے معاشرے میں اس جدید دور میں بھی صنفی مساوات کی ضرورت ہے، معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کو اس کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔ اب بھی جب عورت کی حقوق کی بات آتی ہے تو معاشرے کی اکثریت عورت کو حقوق دینے سے انکاری ہے۔ اس کی واضح مثال خیبر پختونخوا اسمبلی سے خواتین کی حقوق کے متعلق گھریلو تشدد کے قانون کا ہے جس کے لئے دس سال لگے ایوان سے منظور کروانے میں دوسری جانب اگر دیکھا جائے کورونا وباء کے دوران لگانے والے لاک ڈاون کے باعث جب لوگ گھر تک محدود تھے تو اس دوران وزارت انسانی حقوق، نیشنل کمیشن سیٹس آف وومن سمیت کئی انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گھریلو تشدد کی شرح بڑھ گئی تھی کورونا لاک ڈاون کے دوران اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو اگر پہلے سے گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون ہوتا تو شاید ان واقعات میں ملوث ملزموں کو قرار واقعی سزا ملتی لیکن اس کے برعکس تاخیر سے قانون سازی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے اور اداروں میں اب بھی ایسے افراد موجود ہے جو کہ نہیں چاہتے کہ خواتین محفوظ ہو اورانہیں ان کا حق آسانی سے مل سکے۔ اگر ہم عورتوں کو ترقی کے سفر میں اپنے ساتھ لیکر نہ چلے تو نہ ہمارا معاشرہ ترقی کر سکتا ہے اورنہ ہم گھریلوں سطح پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

قوت گویائی و سماعت سے محرومیت نے پشاور کی ثنا بہادر کی قوت ارادیت کو شائد مزید پختہ کردیا ہے

سوال : عالمی سطح پر یا ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی کامیابیوں کا جشن منایا جاتا ہے، جبکہ صنفی مساوات پر کام کو تیز کرنے کیلئے عملی اقدامات پر بھی تجاویز دی جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے حالات اس کے برعکس ہے اس کی وجہ کیا ؟
شاد بیگم : عالمی سطح پر بالکل خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس وقت دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی 8 مارچ کو خواتین کی حقوق کے طور پر منایا جاتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں پہلے سے موجود قوانین اور اس پر عمل درآمد کی وجہ سے وہاں عورتیں خود کو محفوظ سمھجتی ہے لیکن ہمارے ہاں صنفی مساوات کے متعلق جو ادارے کام کر رہے ہیں وہ خود مشکلات سے دور چار ہیں۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ ملک کی پچاس فیصد آبادی کو اپنے ساتھ لیکر ترقی کے عمل میں شامل کریں۔ ہم مانتے ہیں کہ خواتین کی اکثریت ایوانوں کے اندر موجود ہیں، سرکاری شعبوں کے ساتھ نجی اداروں میں ملازمتیں بھی کررہی ہیں لیکن دوسری جانب ہم دیکھیں تو خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع بندوستی اضلاع بن گئے ہیں وہاں خواتین کے بہت ذیادہ مسائل ہیں ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت کے پاس کیا حکمت عملی ہے اور اداروں کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ہمیں ابھی تک اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔ بحثیت مجموعی صنفی مساوات کی بہتری کے لئے سیاست دانوں، مذہبی رہنماوں، سماجی کارکنوں، نوجوان، صحافیوں اور خواتین رہنماوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
شاد بیگم متعدد ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں۔ 1994 میں فوڈ اینڈ کلچر ایوارڈ، 2006 میں صوبائی حکومت کی جانب سے بہترین سماجی کارکن کا ایوارڈ، 2008 میں عالمی دن کی مناسبت سے خواتین کا ایوارڈ جنیوا ورلڈ ویمن سمٹ فاونڈیشن کی طرف سے ایوارڈ اور 8 مارچ 2012 کو شاد بیگم نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یونائٹیڈ اسٹیٹ آف امریکا میںانٹرنیشنل ویمن آف کریج ایوارڈ امریکا کی خاتون اول مشعل اوباما اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے وصول کیا۔ فوڈ اینڈ کلچر ایوارڈ مسلم لیگ نون کے سربراہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے وصول کرچکی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button