بلاگز

”بڑی ہو کر سبزی فروش بننا چاہتی تھی”

رانی عندلیب

بچپن میں خواب بھی معصوم ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی بچپن سے بندہ شعور کی سرحدوں میں داخل ہونا شروع ہو جاتا ہے تو چھوٹے خواب بھی بڑے خوابوں میں تبدیل ہونا شروع کر دیتے ہیں۔

بڑے کہتے ہیں کہ ذہین ہونا زندگی مشکل بنا دیتا ہے، جتنا بندہ سادہ ہو اتنا ہی زندگی گزارنا آسان ہوتا ہے۔

آج یونہی بچپن کی یادوں میں گم ایک چھوٹا سا خواب یاد آ گیا۔ بچپن میں انسان کو کوئی نہ کوئی شوق ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر، انجنیئریا پھر ٹیچر بنے گا، اسی طرح باقی بچوں کی طرح میں بھی بڑی ہو کر کچھ بننا چاہتی تھی اور وہ ڈاکٹر یا انجنئیر بننا نہیں بلکہ میں بڑی ہو کر سبزی فروش بننا چاہتی تھی۔

میرا یہ شوق باقی بچوں سے ذرا مختلف سا تھا اور جب بھی اپنے بابا کے ساتھ سبزی فروش کی دکان پر جاتی بہت مزہ آتا تازہ تازہ سبزی کو دیکھ کر جب دکاندار ناپ تول کے بعد شاپر میں ڈالتا۔۔۔

اللہ تعالٰی نے دنیا میں طرح طرح کی نعمتیں اتاری ہیں جن میں ایک نعمت سبزی بھی ہے۔ ان میں سے کچھ کچی سبزیاں بھی انسان کھاتا ہے، سبزیاں خون کو بڑھاتی ہیں اور انسان کو تازہ دم رکھتی ہیں، زیادہ تر سبزیاں مختلف رنگوں میں ہوتی ہیں جیسے ہرے، لال ان سزیوں کو دیکھ کر دل مچل اٹھتا ہے۔

اسی طرح جب بھی میں گاؤں جاتی تھی. تو وہاں پر کھیتوں میں ہرے بھرے اور رنگ بھرنگی سبزیاں مثلآ. ٹماٹر , کریلا, میتھی, آلو, گوبھی, بھنڈی, توری, کدو, گاجر, وغیرہ دیکھتی تھی تو دل میں ایک عجیب سی خواہش پیدا ہوتی تھی، سبزی والا جب بھی محلے میں آتا اور صدا لگاتا کہ تازہ سبزیاں لے لو، یہ صدا دل کو بہت اچھی لگتی، دل میں سوچتی کاش میں اس سبزی والے کی جگہ ہوتی اور اس طرح میں تازہ سبزیاں بیچا کرتی!

اور جب کبھی ابو کے ساتھ سبزی منڈی جاتی تو وہاں کا منظر دیکھ کر دل میں ہش ہش کرتی کہ کتنے خوش نصیب ہیں یہ لوگ جو سبزی منڈی میں کام کرتے ہیں، کاش! میں بھی کر سکتی۔ چونکہ میں تو چھوٹی تھی سبزی منڈی میں کام نہیں کر سکتی تھی تو ایک خواب ہی تھا۔

سو اپنا خواب پورا کرنے کے لیے کھیل میں سبزی والی بن جاتی، مجھے سبزی والے کا ترازو بھی بہت پسند تھا، اس لیے پالش کے ڈبے سے اپنے لیے ترازو بنایا تھا، کھیلنے کے دوران گھاس سے ساگ بنا لیتی اور گھنٹوں اس سے کھیلتی، دل میں پکا ارادہ کیا تھا کہ بڑی ہو کر سبزی بیچوں گی۔

بچپن میں یہ معلوم نہیں تھا کہ جہاں ہم رہتے ہیں اس معاشرے میں مرد اور عورت کے لئے ہر چیز پہلے سے تقسیم ہو گئی ہے، کیا مرد نے کرنا ہے اور کیا عورت نے کرنا ہے، وہی سوچ۔۔ مردوں والے کام اور عورتوں والے کام میں پیدا ہونے سے پہلے ہی تقسیم ہو چکے ہیں۔

لیکن یہ بچپن بھی عجیب ہوتا ہے کہ ہماری سوچ کے ساتھ ہماری خواہشیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں جو اس معاشرے کی سوچ سے بالاتر ہوتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button