مادری زبانوں کا عالمی دن، پانچ ہزار سال پرانی زبان پشتو کس حال میں ہے؟
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اپنی مادری زبانوں کی اہمیت کو واضح کرنا، اس میں تعلیم حاصل کرنا اور اسی کی بنیاد پر اپنے علاقائی کلچر کو فروغ دینا ہے۔
مادری زبانوں کے عالمی دن کے مناسبت سے عوامی نیشنل پارٹی کے کلچر ڈائریکٹر ڈاکٹر خادم حسین نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ دن مادری زبانوں کے طور پر منانا ایک عظیم روایت ہے، اس سے نہ صرف ایک قوم کی شناخت محفوظ ہوتی ہے بلکہ وہ اپنی کلچر کے فروغ میں بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ دُنیا بھر کے تمام ماہرین لسانیات اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ابلاغ عامہ کا اہم ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے اجتماعی حکمت آسانی سے منتقل کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مادری زبان کے بغیر تخلیق، ایجاد، مسائل کی حل کیلئے فکر اور اجتماعی ادارے جیسے عدالت، سیاست، صحافت، مارکیٹ کی بناوٹ ممکن نہیں۔
جب ڈاکٹر خادم سے ابتدائی تعلیم کو اپنی مادری زبان میں حاصل کرنے کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مادری زبانوں کی بنیاد پر بچوں کو دیگر زبانیں جاننے میں آسانی ہوتی ہے اور اُن میں تصورات اور خیالات کی حس روشن ہوجاتی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ ” یہ ضروری نہیں ہے کہ ابتدا میں بچے کو انگریزی اور اردو پڑھائی جائے تو وہ آگے چل کر ان زبانوں پر مکمل عبور حاصل کر سکتا ہے۔ مگر میرا مشاہدہ ہے کہ جب کوئی بچہ اپنی ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرتا ہے تو وہ آسانی سے دیگر زبانیں بھی سمجھ سکتا ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ پشتون اسلئے ایک مضبوط اور توانا قوم ہے کہ اُنکی پشتو زبان پانچ ہزار سالہ تاریخ رکھتی ہے اور ہر قوم اُس وقت تک قوم سمجھی جاتی ہے جب تک وہ اپنی تاریخ، ثقافت، مادری زبان اور جغرافیہ محفوظ رکھے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دُنیا بھر میں 6000 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں 43 فیصد زبانیں ختم ہونے جارہی ہیں جس سے نا صرف شناخت ختم ہوتی ہے بلکہ اس علاقے کے کلچر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ادارے نے صرف کئی سو زبانوں کو تعلیمی نظام اور روز مرہ زندگی میں استعمال کرنے کا درجہ دیا ہے اور اُنکے مطابق ڈیجیٹل دنیا میں تقریباً 100 زبانیں استعمال کی جاتی ہے۔
یونیسکو کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 1950 کے بعد 240 زبانوں نے اپنا وجود کھو دیا ہے۔
دنیا بھر میں 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے؟”
21 فروری 1999 میں اقوام متحدہ کی بچوں کی تعلیم اور کلچر کی فروغ پر کام کرنے والے ذیلی ادارے یونیسکو نے اسی دن کو مادری زبانوں کے طور پر منانے کا اعلان اس سلسلے میں کیا جب 21 فروری 1952 میں مشرقی پاکستان کے جگناتھ یونیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج سمیت دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا نے تعلیم کے حصول کو اپنی مادری زبان بنگلہ میں برقرار رکھنے کیلئے تحریک شروع کی اور اُسی تحریک کے نتیجے میں پولیس نے اُن پر فائرنگ کی اور کئی طلبا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
بچوں کیلئے ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں کیوں ضروری ہے؟
اس حوالے سے عبدالولی خان یونیورسٹی کے پشتو ڈیپارٹمنٹ کے چئرمین اور آٹھ کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سہیل خان نے کہا کہ دنیا بھر کے تعلیم و تربیت کے سائنسدان اور تحقیق کار اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کے حصول اور فکر کے فروغ کے جتنے بھی عوامل ہیں وہ مادری زبانوں کے بغیر ممکن نہیں۔
ڈاکٹر سُہیل خان نے ورلڈ بینک کی ایک تحقیقی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر بچوں کو انکی مادری زبان میں تعلیم دی جائے تو اس سے بچوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے اور ”یہی تعلیم کا اصل مقصد ہے”۔
انہوں نے کہا کہ ” اگر تعلیم مادری زبان میں نا ہو تو اسے ہم معلومات کہہ سکتے ہیں اور یہی عمل آج ڈیجیٹل آلات کے ذریعے اسانی سے ہوسکتی ہے مگر بچے سیکھنے کے عمل سے محروم رہیں گے”۔
ڈاکٹر سہیل کے مطابق شہریوں کو 100 فیصد تعلیم یافتہ بنانے کیلئے حکومت نے 1992 سے 2000 تک ہدف رکھا جبکہ اسی طرح دوبارہ 1998 میں 2010 تک یہی پالیسی دہرائی گئی مگر تحقیق کے مطابق یہ اہداف اسلئے حاصل نہ ہوسکے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں نہیں دی گئی۔
سُہیل خان نے کہا کہ دُنیا بھر کی ترقیافتہ اقوام کی ترقی کا راز اسی حقیقت میں پنہا ہے کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبانوں میں حاصل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پشتو زبان ہزاروں سال کی تاریخ رکھتی ہے اور اسی زبان میں آگے بڑھنے کے کئی مواقع موجود ہیں اگر حکومتی سطح پر اس کی طرف توجہ دی جائے