”پرانا وقت جیسا بھی ہو اچھا لگتا ہے کیونکہ یادیں بری بھی اچھی لگتی ہیں”
سٹیزن جرنلسٹ محمد نواز اورکزئی
گزرا وقت خواہ جیسا بھی ہو لگتا اچھا ہی ہے۔ فاٹا میں، خاص کر اورکزئی میں بدامنی سے قبل لوگوں کی مالی حالت کچھ قدرے بہتر تھی لیکن ان کی زندگیاں ان اصولوں یا قواعد پر نہیں تھیں جو روشن مستقبل کے ضامن بن سکتے کیونکہ وہ زندگی بے آئین تھی۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں سوشل ورکر صاحبزادہ حلیم نے کہا کہ پرانا وقت جیسا بھی ہو اچھا لگتا ہے کیونکہ یادیں بری بھی اچھی لگتی ہیں، یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، ”جہاں تک سابقہ فاٹا کا تعلق ہے تو بدامنی کی وجہ سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، مالی و جانی نقصان ضرور ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ لوگوں میں سیاسی شعور آیا، اپنے حقوق کی سمجھ آ گئی، کالے قانون ایف سی آر سے تقریباً آزاد ہوئے، تعلیم کو ایک حقیقت تسلیم کیا گیا، کلاشنکوف کلچر کو خیر باد کہا گیا یعنی روشن مستقبل کی راہ پر گامزن ہوئے، آنے والی نسلوں کا مستقبل بہت روشن نظر آتا ہے، میرے خیال میں لوگ جہالت سے اجالے کی طرف آ گئے ہیں اور یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا ابقلاب ہے۔”
ایک اور مقامی باشندے، شاہنواز، نے کہا کہ جب میں سکول میں پڑھ رہاتھا اور زمانہ طالب علمی سے معاشرے میں موجود معاملات اور لوکل سطح پر بہت سے قومی فیصلوں پر میری اس وقت نظر تھی جب ہمارے ملکان صاحبان قوم میں موجود معاملات کیلئے ایک جج اور وکیل کی اہمیت رکھتے تھے اور یہی لوگ قوم کے مستقبل کے فیصلے کیا کرتے تھے لیکن ہمارے زمانے سے لے کر اب تک جرگہ کا نام بہت مقدس سمجھا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہماری پیدائش سے لے کر اب تک کسی ایسے جرگے کو ھم نے بہت کم دیکھا جو متوزان فیصلے کر چکا ہو، کچھ جرگوں کو میں بہت اچھی نظر سے دیکھ رہا تھا جو سوات میں آپریشن کے بعد ہو رہے تھے کیونکہ ہمارے اورکزئی کے ملکان صاحبان کو پتہ لگ گیا کہ سوات میں لگی آگ اب اورکزئی کی طرف آ رہی ہے اور اس کو روکنے کیلئے لوکل طور پر امن کے معاہدے ہوئے جس کو وہاں پر "قوم زونہ” اور "اسلام زونہ” کے نام سے جانا جاتا تھا اور قوم اس آگ کو اپنے علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے متحد ہو گئی لیکن اس وقت ھمارے گاؤں میں ایک گھر میں عورت کا قتل ہوا اور جس گھر میں وہ رہ رہی تھی تو انہو ں نے یہ افواہ پھیلائی کہ عورت نے خودکشی کی ہے، جب اپنے گھر والوں نے دیکھا تو اس کو گولی لگی ہوئی تھی تو وہ لوگ قوم کے پاس اپنی فریاد لے کر گئے لیکن بدقسمتی سے پشتون قوم پیسے کے سامنے بے بس ہے اور اس جرگے میں دو فریقوں کے درمیان ملکان صاحبان کی خریداری شروع ہوئی، ہر ایک فریق چاہتا تھا کہ فیصلہ میرے حق میں ہو جائے اور اس طرح قوم کا اتحاد کمزور ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ پھر بھی یہ قوم کچھ نہ کچھ بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف اٹھ رہی تھی لیکن اس دوران غلجو اورکزئی میں علی خیل قبیلے کا ایک جرگہ ہو رہا تھا اور بارود سے بھری گاڑی اس میں داخل کر دی گئی، دھماکہ ہوا اور ہمارے 180 لوگ اس میں شہید ہو گئے جن میں بہت سے ملکان بھی شہید ہوئے اور اس طرح شدت پسند اورکزئی میں زبردستی داخل ہو گئے اور پھر یہ علاقہ اور اس میں بسنے والے لوگ متاثر ہونے لگے۔
ٗمقامی شاعر شاکر صاحب نے کہا کہ سب سے آخر میں اورکزئی متاثر ہوا تھا، اس سے قبل اورکزئی میں لوگ تعلیم کی طرف مکمل راغب ہو چکے تھے اور جگہ جگہ گورنمنٹ اداروں کے علاوہ پرائیویٹ ادارے بھی کھل چکے تھے لیکن بعد میں بدامنی اور اس کے خلاف فوجی آپریشن کے نتیجے میں پورا اورکزئی بری طرح متاثر ہوا لیکن آپریشن کے بعد لوگوں کو ایک امید تھی کہ زندگی پھر سے شروع ہو گی، بہت جلد اورکزئی کامیابی اور ترقی کی طرف گامزن ہو گا لیکن یہ سب ان کی خام خیالی ثابت ہوئی کیونکہ ابھی تک اورکزئی کے لوگوں کو مکمل طور پر واپس نہیں بھیجا گیا ہے اور جو لوگ واپس جا چکے ہیں وہ بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، نہ سڑکوں کی حالت اچھی ہے نہ ہسپتال مکمل فنکشنل ہیں اور نہ ہی تعلیمی ادارے اچھے نتائج دے رہے ہیں اور دیگر بنیادی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔