‘اب تم بڑی ہوگئی ہو سکول مت جاؤ لوگ ہمیں طعنے دیں گے’
سٹیزن جرنلسٹ نواز اورکزئی
‘جب میں پانچویں کلاس تک پہنچی تو گھر والوں نے سکول سے نکل کر یہ کہا کہ اب آپ بڑی ہوئی ہے اب آپ کو سکول بھیجنے پر ہمیں لوگ طعنے دیں گے اور قسم قسم کی باتیں کریں گے اس لئے آپ اور تعلیم حاصل نہیں کرسکتی’
یہ کہنا ہے سنٹرل اورکزئی سے تعلق رکھنے والی کلثوم کا جس کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا لیکن اس کو والدین نے سکول سے اٹھادیا کہ اب تم بڑی ہوگئی ہو۔ کلثوم کا کہنا ہے کہ یہ قصہ صرف اس کا نہیں ہے بلکہ اس کی طرح کئی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن روایات اور گھر والوں کی طرف سے اجازت نہ ملنے پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی تعلیم کو خیرباد کہ دیتی ہیں۔
تعلیم نسواں کے بارے میں قبائلی عوام کی سوچ اب بھی رجعت پسندانہ اور نام نہاد قبائلی روایات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔
تعلیم نسواں کے بارے میں پختون معاشرہ ازل سے انتہا پسند رہا ہے لیکن بنسبت شہری علاقوں کے ،سابقہ فاٹا کے قبائلی علاقوں میں یہ سوچ اپنے عروج پر رہی ہے اور ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران سنٹرل اورکزئی کے استاد اضلاف خان نے تعلیم نسواں کی کمی کے بارے میں مختلف وجوہات بیان کی۔ ان کا کہنا ہے کہ گرلز سکولوں کا غیر موزوں جگہ پر بنوانا بھی تعلیم نسواں کے راستے حائل رکاوٹوں میں سے ایک ہے جسکی وجہ سے لوگ اپنی بچیاں دور نہیں بھیجتے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں تعلیم نسواں کی اہمیت کے بارے آگاہی مہمات چلانی چاہئے اور حکومت کو چاہیئے کہ تعلیمی ادارے موزوں جگہ پر بنوائے تاکہ وہاں تک رسائی میں دشواری نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں اکثر سرکاری ادارے ملکان اور عزیز واقارب کو دیے گئے ہیں اور غیر موزوں جگہ پر بنائے گئے ہیں.
ایک اور استاد محمدخلیل کا کہنا ہے کہ اکثر لوگوں میں یہ شعور آگئی ہے کہ تعلیم میں ہماری ترقی کا راز پوشیدہ ہے لیکن بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے اب بھی اکثر لوگ وہی پرانی سوچ رکھتے ہیں کہ بچیاں ہمارے گھروں میں چند سال مهمان ہیں انہیں کیوں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائیں، وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بچیاں ایک قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں.
مقامی ملک مثل خان کہا کہ پختون قوم اور بلخصوص قبائلی عوام کو یہ دقیانوسی ، رجعت پسندانہ اور انتہا پسندانہ سوچ ترک کرکے اپنی خواتین کو تعلیم یافتہ بنانا چاہئیے ، ہاں اسکے لئے تعلیمی اداروں میں اصلاحات ، الگ تعلیمی ادارے اور سسٹم کا قیام ایک جائز اور اچھا مطالبہ ہے لیکن ہم اپنی بے شعوری اور جاہلیت کے بناپر اگر اپنی ابادی کے اس نصف حصے کو ناخواندہ رکھیں گے تو ہم دنیا کے ہر میدان میں باقی اقوام سے پیچھے ،جہالت کے اندھیروں میں گھرے ہوئے ، ترقی سے دور ، قومی شعور سے ہمیشہ بے بہرہ رہیں گے کیونکہ ایک پڑھی لکھی ماں ایک مہذب اور بہترین معاشرے کیلئے ایک ضامن ہوتی ہے۔