‘پڑھنا میرے لئے محض ایک خواب تھا، ماوا نے اسے حقیقت میں بدل دیا’
بشریٰ محسود
‘جب میں 12 سال کاتھا تو میرے والد آپریشن راہ نجات میں شہید ہوگئے ، پڑھنا تو دور کی بات ہمیں دو وقت روٹی بڑی مشکل سے ملتی تھی‘
یہ کہنا ہے جنوبی وزیرستان کے تحصیل لدھا سے تعلق رکھنے والے طالب علم شاکر گل کا جو اب خیبر سکول اینڈ کالج ڈیرہ اسماعیل خان میں زیر تعلیم ہے۔
شاکر گل پانچویں جماعت میں تعلیم کو خیرباد کہنے والا تھا لیکن اس دوران محسود ویلفئیر ایسوسی ایشن ان کی زندگی میں روشنی بن کر آگیا۔
شاکر گل نے بتایا کہ انہوں نے ایک درخواست لکھی محسود ویلفئر ایسوسیشن کے ذمہ داروں نے ان کا ٹیسٹ لیا، انکے حالات دیکھے تو انہوں نے نہ صرف تسلی دی بلکہ انکے تعلیمی اخراجات بھی اپنے ذمہ لے کر انکو حوصلہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ محسود ویلفئر ایسوسیشن کے سبب آج انکا تعلیمی سفر جاری ہے۔
محسود ویلفئر ایسوسی شن ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کا قیام مئی 2014 میں عمل میں لایا گیا اور اب تک شاکر کی طرح ہزاروں طلباؤ کو تعلیم دلوا چکا ہے۔ ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق محسود قبیلہ 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جنوبی وزیرستان میں آپریشن کی وجہ سے 80 ہزار مکانات تباہ ہوئے جس میں تعلیمی ادارے بھی کثیر تعداد میں شامل ہے، وہاں کئی تعلیمی ادارے اب بھی غیر فعال ہیں۔
محسود ویلفئر ایسوسی شن ایشین کے چیئرمین ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس رحمت خان محسود کے مطابق دہشتگردی کی وجہ سے وزیرستان کو بڑا جانی و مالی نقصان ہوا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنے قوم اور علاقے کیلئے کچھ کریں اس لئے محسود قوم سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ اور کچھ حاضر سروس افسران کے ساتھ 2014 میں میٹنگ کی اور اس میٹنگ میں تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا جس کو محسود ویلفئر ایسوسی ایشن کا نام دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی مقصد تعلیم کو فروغ دینا ہے، کیونکہ دہشت گردی اور آپریشن کی وجہ سے ہماری ایک جنریشن تباہ ہوئی ،ہمارے طلباء و طالبات ڈی ائی خان، کراچی اور ٹانک تک پہنچ گئے،جس میں 70 فیصد لوگ غریب تھے،
رحمت خان نے بتایا کہ ملک کے مختلف اداروں میں زیر تعلیم 1500 ذہین اور غریب طلباء کو سکالرشپس دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ 141 ایسے یتیم بچے ہیں جن کو نہ صرف دوسرے فلاحی اداروں کی تعاون سے تعلیم دلا رہے ہیں بلکہ ان کی کفالت بھی کر رہے ہیں۔
رحمت خان محسود نے بتایا کہ ہم ہر سال وزیرستان ٹیلنٹ ایوارڈ شو منعقد کرتے ہیں جس میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت طلباء و طالبات کو نہ صرف تعریفی اسناد دی جاتے ہیں بلکہ ان کو نقد انعامات سے بھی نوازا جاتا ہیں جس کا مقصد طلباء کا حوصلہ افزائی اور تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
ماوا فری ایجوکیشن پروگرام کے تحت ٹانک ڈی آی خان اور کراچی کے مختلف پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے غریب اور باصلاحیت بچوں کو مفت تعلیمی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس پروگرام کے تحت 26 سکولوں کے انتظامیہ کے ساتھ باہمی تعاون کے یاداشت پر دستخط ہوئے ہیں جہاں 135 طلباء اسکالرشپ پر پڑھ رہے ہیں۔
شبنم افتخار سکالرشپ فرینڈز اف ماوا اور دیگر کی تعاون سے 211 مستحق طلباء کو وضائف مہیا کئے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ جہانزیب برکی کی تعاون سے 400 سے زیادہ غریب و نادار بچوں کو اسکالرشپس دی جا چکے ہیں،
جہانزیب برکی محسود ویلفئر ایسوسیشن ایسوسیشن کا وائس چیئرمین ہے، انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے متاثرین سات آٹھ سال پہلے کراچی منتقل ہو گئے ،ان کیلئے تعلیم تو دور کی بات اپنے لئے کھانا پیدا کرنا مشکل تھا۔
جانزیب برکی نے بتایا کہ ان کے ساتھ تعاون کیلئے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، ہم نے ماوا کو ساتھ ملایا اور اپنے محسود مشران کی سپورٹ حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ اپنے لوگوں کی بدحالی دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ تعلیم کے بغیر ان مسائل سے نکلنا ناممکن ہے کیونکہ تعلیم یافتہ لوگ ہی اپنے لئے صحیح راستے کا تعین کر سکتے ہیں۔
جہانزیب برکی نے بتایا کہ کراچی میں ماوا کی پلیٹ فارم سے غریب اور ذہین طلباء کو سپورٹ کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف ان کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں بلکہ ان کی حاضری اور سالانہ کاکردگی بھی باقاعدہ مانیٹر کرتے ہیں کہ جن طلباء کو ہم سپورٹ کر رہے ہیں وہ کس حال میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محسود ویلفئیر ایسوسیشن تعلیم کو عام کرنے کیلئے اجتماعی کوششوں پر یقین رکھتا ہے، جنوبی وزیرستان میں ایجوکیشن سٹی کا قیام ماوا کے اولین ترجیحات میں شامل تھا جس کا بنیاد 26 مارچ 2016 کو رکھا گیا، ایجوکیشن سٹی کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر خیبر پختونخوا حکومت نے 500 ملین کی خطیر رقم فراہم کی۔
محسود ویلفئر ایسوسی ایشن (ماوا)کے چیئر مین رحمت خان محسود کے مطابق ایجوکیشن سٹی میں پرائمری سے پی ایچ ڈی تک حصول تعلیم ممکن ہوگی، انہوں نے کہا کہ یہاں ملک کی مختلف یونیورسٹیاں اپنے کیمپس کھولیں گے، جس سے جنوبی وزیرستان میں شرح خواندگی بہتر پو جائیں گی۔