”زہ زہ کورونا، خلک دے اوویستل د خپلو مزدورو نا”
ګوهر وزير
سوشل میڈیا پر پچھلے تین –چار ہفتوں سے کورونا کے حوالے سے ایک پشتو گانے کو کافی پزیرائی مل رہی ہے جس پر لوگوں کے بہت دلچسپ تبصرے بھی سامنے آ رہے ہیں۔
گانے کے بول ہیں
(زہ زہ کورونا، مڑے زہ بس دے کورونا— خلک دے اوویستل د خپلو مزدورو نا)
جس کے معنی ہیں
(بس بہت ہو گیا کورونا، اب بس چلی جا——- لوگوں کو محنت مزدوری کا نہیں رہنے دیا)
گانے میں کورونا کے حوالے سے لوگوں میں پھیلے ڈر کا بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ میڈیا کے کردار پر بھی بہت ہی معنی خیز انداز میں تنقید کی گئی ہے۔
اس گانے کو باقاعدہ سٹوڈیو میں ریکارڈ کرنے اور فلمانے کی بجائے ایک عام محفل میں گایا گیا ہے جس کے مصنف اور گلوگار کراچی سے تعلق رکھنے والا مقامی فنکار وکیل خان ہیں۔ وکیل خان خود گردوں کے مریض ہیں اور ہفتے میں دو بار ڈائیلاسز پر مجبور ہیں۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں وکیل خان کا کہنا تھا کہ اس گانے کے بول تبھی ان کےذہن میں آئے جب وہ خود وبا اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے لگا۔ مجھے ڈر رہنے لگا کہ اگر کہی لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں گردوں کی صفائی کے بروقت ہسپتال نہ پہنچا تو میری موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
وکیل خان کے گانے کو سوشل میڈیا پر بہت پزیرائی مل رہی ہیں۔
فیس بک پیج پر اس گانے کے لنک پر طارق جی باجوڑی نے کمنٹ کیا ہے کہ کیا حیرت انگیز اور تخلیقی شاعری ہیں سن کر مزا آگیا۔
اس طرح ذاہد خان کا بھی فیس بک پر کہنا ہے کہ وباء کے دنوں میں یہ تفریحی گانا سن کر اچھا لگا اور اس طرح مزید تفریحی آیٹم کہ مواقع ہونے چاہۓ ۔ ان دونوں کی طرح سوشل میڈیا کہ بہت سارے صارفین نے اس گیت کو سراہا ہے اور اس طرح کے ملے جلے تاثر دیے ہیں ۔
چند افراد اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں اور اس کو مذہب سے جوڑ رہے ہیں کہ وبا کا اس مذاق نہیں اڑانا چاہئے۔
عا لمی وبا کورونا وائرس نےدنیا بھر میں زندگی کے ھر شعبے کو متاثر کیا ہے، ایسے میں دیگر شعبوں کی طرح اس کی اثر نے پشتو ادب شاعری اور موسیقی کو بھی اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عالمی وباء پھیلنےکےبعد وکیل خان کے علاوہ کئی ایک ناموراور مقامی گلوکاروں نے کورونا وائرس سے بچنے کیلئے طے شدہ ضابطہ اخلاق کا تذکرہ کرتے نظر آ تے یہں
کرونا وبا کے دوران پشتو ادب پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہے، اس موضوع پر ٹی این این کے نمائندہ گوہر وزیر نے بنو ڈگری کالج پشتو ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر ابرار داوڑ (بیزار داوڑ) سے تفصیلی بات چیت کی ہے ۔
کورونا وباء کی پشتو ادب پر اثرات کے حوالے سے جناب بیزار داوڑ کا کہنا تھا کہ کورونا وباء نے اس مختصر سی مدت میں پشتو ادب پر نمایاں اثرات مرتب کی ہیں اور وہ اثرات شاعری میں صاف نظر آرہے ہیں جو آج کل مختلف گانوں کی صورت میں سامنے آئی ہے، شاید افسانوی شاعری پر بھی اس کے اثرات ہو لیکن ابھی تک وہ دیکھنے میں نہیں آ ۓ اور یہ کہ اس وباء کے اثرات کافی دیر پاء لگتے ہیں تو میرے خیال اس موضوع پر ایچ ڈی کے مقالات لکھے جاسکتے ہیں جو آگے جاکر اس قسم کی
دشتگردی کے زما نے میں بھی ہمارے شعراء حضرات نے وقتا فوقتا اوازا ٹھائی ہیں اور اپنے اشعار کے زریعے امن کے قیام کے لئے کوشش کی ہیں اس طرح اس وبائئ صورتحال میں بھی ہمارے اداب سے وابسطہ افراد اپنے تحاریر کے زریعے عوام کو ان تمام اقدامات سے آگاء کرتے رہے ہیں جو ماہرین نے کورونا سے سدباب کیلۓ تجویزکر رکھے ہیں بیزار داوڑ نے بتایا۔
بقول بیزار داوڑ کے! کورونا سے پشتو ادب،موسیقی اور شاعری پر خصوصی اثرات مرتب کی ہیں ۔ ہمارے بعض نامور شعراء نے کچھ نغمے بھی اس حوالے سے لکھے ہیں جسے آج کل بہت سنے اور پسند کئے جاتےہیں ۔ مثلاً کرن خان اور ہارون باچا جو پشتو موسیقی کے لیجینڈ مانے جاتے ہیں نے بھی کورونا کے دوران کچھ گانے گائے ہیں مثلا کرن خان کی مشہور گیت جو سوشل میڈیا پر اجکل بہت وائرل ہوچکی ہے ۔ اردو ترجمے کیساتھ کچھ یوں مفہوم دیتی ہے ۔
“وبا ہے، جس نے پوری دنیا کو آپنی لپیٹ میں لیا ہے،یاللہ خیر ۔ ۔ ۔”
ڈاکٹر حضرات کی کورونا سے بچاؤ کے حوالے سے تجاویزکا عکس شاعری میں موجودگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں جناب بیدار صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر حضرات نے جو سائنسی یا طبعی اصول مقرر کئے ہیں مثلاٍ ایس او پیز وغیرہ پر عمل درآمد کے حوالے سے ہمارے شاعر اکبر سیال نے انکو اشعار کی لڑی مین کچھ یو پرویا ہیں ۔
مفہوم:
"سنو ایک بات ایک بھائی کی کہ بیٹھ جاؤ
آپ پر کوئی آنچ نہ آئے اس لئے گھر بیٹھ جاؤ
اے میرے پیارے،میرے دل کے ٹکڑے
مہربانی کرکے گھر بیٹھ جاؤ”
ایک اور شاعر نے ایس او پی (SPO) کی منظر کشی کچھ یوں بیان کی ہے ۔
مفہوم:
“کرونا کی اس موسم میں مجھے سنانے کیلئے مت بھٹاؤ
آگر سنانا ہے تو کھڑے ہوکر دور سے سنانا ”
چونکہ ڈاکٹر نے Public gathering کو وبا کی پھیلاؤ کی سبب قرار دی ہے اس لئے حکومتوں نے عوامی جگہوں پر پابندیاں لگائی ہیں ۔ تو یہاں بھی ایک مقامی پشتو شاعر انکو یوں منظوم کرتا ہے ۔
مفہوم:
“منڈان پارک،دمی پل ،چوک بازار کی شام
جینے کیلئے یہ تمام سیر و تفریح کے مقامات کو چھوڑنا ہوگا”۔
جب بیدار صاحب سے پوچھا گیا کی کیا قبائلی یا وزیرستانی شعراء نے بھی اس سلسلہ میں کوئی شاعری کی ہے؟
جی ہاں ! بلکل۔ قبائلی شعراء ہر دور میں حالات کی ترجمانی کرچکے ہیں ۔ مثال کے طور وزیری لہجہ میں ایک شفاہی گیت ہے جو زبان زد عام ہے ۔ کہ
مفہوم:
“حالات اتنے بگڑے ہیں کہ خون کے آنسو روئیں گے
آگر کھانسے تو مطلب آپ گئے زندگی سے”
یعنی یہاں ان تمام نزاکتوں کو شفاہی زبان میں بیان کیا گیا ہے ۔ جو کورونا کی خوف کی وجہ سے عوام کی ذہنوں پر سوار ہیں۔ آگرچہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ” خوف نہیں بلکہ اختیاط”۔
ایک اور پیروڈی ہے جو پشتو ٹپہ میں منظوم ہے کہ
“کرونا آنے جانے سے بڑھتی ہے
میرے پیارے! نہ تم آنا اور نہ میں ملنے آؤنگا” ۔
چونکہ کرونا وبا کے پھیلتے ہی مختلف لوگوں نے مختلف رایے قایم کیں ۔ کوئی کہتا تھا کہ یہ کفار پر اللہ کا غذاب ہے کوئی انکو گناہوں کی کثرت کی سبب قرار دے دیتے تھے تو اس کا جواب بھی وزیرستان کے ایک شاعر نورخان عاجزنے کچھ یوں دیا ہے کہ
مفہوم:
"ایک سے دوسرے،دوسرے سے تیسرے کو منتقل ہوتی ہے
کرونا وائرس ہے ۔ کافر و مسلمان کی فرق نہیں کرتا ”
پھر عوام کو سمجھانے کیلئے ایک اور مثال دیتا ہے کہ
“خدارا کسی کی باتوں میں نہ آنا
یہ بیماری ہے، دین و ایمان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں
خان صاحب ہو، غریب ہویا امیر، اگر احتیاط نہ کی گئی
وباء وباء ہوتی ہے، غریب و امیر میں کوئی فرق نہیں کرتی۔”
اگر ایک طرف دور حاضر میں دنیا کو ایک نئ وباء کا سامنا ہے تو دوسری جانب اس بیماری کو لے کر ہمارے بہت سارے مقامی شعراء اور گلوکاروں نے اسے تفریح کا ذریعہ بھی بنایا ہے جو مختلف گانوں او اشعار کی صورت میں ہماری سامنے آ رہا ہے۔