‘شوہر کو الرجی کی وجہ سے گھر بٹھایا تو نوبت فاقوں تک آگئی’
تارا اورکزئی، علی افضل افضال
‘میرے گھر میں پکانے کا کچھ نہیں ہوتا تھا، میرے بچے روتے بلکتے مجھ سے پیسے مانگتے تھے لیکن میرے پاس کیا تھا جو میں انکو دیتی، بہت سخت وقت گزارا ہے ہم نے لاک ڈاون میں’
ضلع کرم کی رہائشی گل بانو کا کہنا ہے کہ انکی شادی 14 سال کی عمر میں ہوئی اور انکے 7 بچے ہیں، ان کا خاوند چھوٹا موٹا کام کرتا ہے، پہاڑوں پہ جاکر پرندوں کا شکار کرتا ہے اور پرندوں کو زندہ پکڑ کر لاتا ہے اور پھر گاؤں کے قریب ایک چھوٹا سا شہر ہے وہاں اس کو بیچ کرایک یا 200 ہزارروپے میں بیچ کر گھر کا خرچہ چلا تا ہے۔
گل بانو کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو الرجی کی بیماری ہے جب ملک میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا تو اس وقت انہوں نے شوہر کو کہا کہ باہر نہ جائے کیونکہ وہ پہلے سے ہی بیمار ہے’ جب لاک ڈاون کے دوران میرا شوہر گھر میں بیٹھ گیا تو میرے گھر میں فاقوں تک نوبت پہنچ گئی تھی کیونکہ ایک وہی ایک کمانے والا ہے اور باقی سب کھانے والے ہے، جب بچے پیسے مانگتے تھے تو میرے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا بچوں کے پاس جوتے بھی نہیں تھے جو تھے وہ پھٹ گئے تھے’
گل بانو نے بتایا کہ وہ پہلے ہی سے غربت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن جب لاک ڈاون لگا تو وہ پائی پائی کو ترس گئے، اس دوران وہ پڑوسیوں کے گھر گئی کہ انکو کچھ پیسے دے دیں تاکہ اپنے بچوں کے لیے کچھ خرید سکیں لیکن انہوں نے بھی یہ کہہ کر پیسے سینے سے انکار کردیا کہ لاک ڈاون ہے انکے اپنے کاروبار خراب ہے اور مرد گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔
گل بانو نے کہا کہ پڑوسیوں نے پھر انکو احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے بارے میں بتایا کہ اس طرح حکومت ہر گھرانے کو 12 ہزار روپے دے رہی ہے جس کے بعد انہوں نے بھی اس کے لیے اپلائی کیا جو انہوں نے ہی کرکے دیا کیونکہ وہ خود موبائل پہ میسج نہیں بھیج سکتی، پھر کچھ دن بعد انکو میسج آیا کہ انکا نام امداد کے لیے منتخب ہوگیا ہے جس کو سن کر وہ بہت خوش ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پیسے لے کر انہوں نے گھر کے لیے راشن لیا، بچوں کے لیے نئے جوتے خریدے اور 2 ہزار روپے سے گھر میں چھوٹا سا دوکان بنا لیا جو آج تک چلا رہی ہے اور اس سے انکے گھر کا خرچہ چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کی بے حد شکرگزار ہے کہ جس کی بدولت اس کے مسائل کچھ وقت کے لیے کم ہوگئے۔
نہ صرف گل بانو کرونا لاک ڈاون کے دوران مشکلات سے دوچار تھی بلکہ کئی ایسے گھرانے تھے جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہوگیا تھا، پاڑاچنار کی رہائشی رابیہ گل کی صورتحال بھی گل بانو سے مختلف نہ تھی، رابیہ گل کا کہنا ہے کہ احساس کیش پروگرام کے پیسے ایسے وقت میں ملے جب وہ ہر طرف سے پریشان حال اور مایوس تھی جب اسے احساس پروگرام کے بارہ ہزار روپے ملے تو اسکی خوشی کی انتہا نہ رہی ان پیسوں سے گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کئے اور قرض کا رقم ادا کیا رابیہ گل کا مطالبہ ہے کہ احساس پروگرام مستقبل میں بھی جاری رکھا جائے۔
احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے زریعے رابیہ گل کی طرح اکیس لاکھ خاندانوں کو بارہ ہزار روپے دئے گئے ہیں پروگرام کے زریعے صوبہ خیبر پختونخوا میں انتیس لاکھ دس ہزار خاندانوں کے ساتھ اس قسم مدد کی جائیگی۔
احساس ایمرجنسی کیش پروگرام ملک میں کورونا وائرس کے بعد فوری طور شروع کیا گیا ہے جس کے لئے حکومت نے ایک سو چوالیس ارب روپے بجٹ رکھا ہے اس پروگرام کو نہ صرف اندرون ملک پزیرائی ملی ہے بلکہ بیرون ملک بھی سراہا جارہا ہے۔
ضلع کرم کے علاقہ للمہ سے تعلق رکھنے والا ابراھیم شاہ جو کہ مزدوری کرتا ہے کا کہنا ہے کہ کرونا کی وجہ سے وہ انتہائی بد حالی کا شکار تھا کہ دوسروں سے سوال کرنے پر مجبور ہوگیا تھا مگر خوش قسمتی سے احساس کیش پروگرام کے پیسے مل گئے اور ان پیسوں سے بہت اچھا گزارا ہوا مگر مہنگائی بہت زیادہ ہے اس وجہ سے بھی اس پروگرام کو جاری رکھنےکی ضرورت ہے۔