‘بی ایچ یو میں نہ تو دوائی ملتی ہے اور نہ ہی ڈاکٹرز آتے ہیں’
سٹیزن جرنلسٹ شاہ زیب خان
سب ڈویژن حسن خیل میں واقع قوم فریدی کی 4000 ہزار ابادی کے لئے صرف ایک سرکاری بی ایچ یو ہے وہ بھی نہ ہونے کی برابر ہے۔
قوم فریدی ایک قبائلی علاقہ ہے جو کہ پشاور سے تقریبآ 55 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہ علاقہ پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، قوم فریدی کے لوگ بہت پسماندہ ہے، قوم میں ابادی کم ہیں کیونکہ علاقے میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے اس وجہ سے لوگوں نے اپنے علاقے کو چھوڑا ہوا ہے۔
حاجی گل رحمان جس کا تعلق قوم فریدی علاقہ پنجاب سے ہے نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا کہ انکے علاقے کو لوگوں کو صحت کے معاملے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ یہاں کوئی سہولیات نہیں ہے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن ہم ابھی تک صحت کی سہولیات کو ترس رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بی ایچ تو موجود ہے لیکن وہاں کوئی سہولیات نہیں ہے جس کی وجہ سے خواتین اور بچوں کو علاج کی سہولیات نہیں مل پاتی، خاص کر بچوں کو وقت پر ٹیکے نہیں لگتے اور ان میں بیماریاں پھیلتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بی ایچ یو میں دوائی نہیں ہے صرف خالی مکان ہے اور نہ ہی کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود ہے جس کی وجہ سے خواتین کم ہی بی ایچ یو جاتی ہے اور وہ پشاور جانے پر مجبور ہے، کرایہ بھی لگتا ہے، وقت کا بھی ضیاع ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وقت پر علاج بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے علاقے سے روزانہ کی بنیاد پر 10 سے لے کر 20 تک مریض پشاور جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے علاقے کے بی ایچ یو میں نہ تو ایل ایچ وی ہے نہ تو یف ایم ٹی ہیں اور نہ ہی ای پی ائی ٹیکنیشن موجود ہیں۔ اس بی ایچ یو کو 35 سال ہوگئے ہیں کہ بنا ہوا ہے لیکن اس وقت سے لے کر اب تک نہ تو ہم نے ہسپتال میں دوائی دیکھی ہے اور نہ ہی ڈاکٹرز کو دیکھاہے کہ جنہوں نے پنجاب کے علاقے کے عوام کا علاج کیا ہو۔
70 سالہ مقامی باشندے ایازافریدی کا کہنا ہے کہ باقی عملہ تو چھوڑے جو چوکیدار ہیں وہ بھی کھبی کھبار آتا ہے تنخواہ گھر پہ لیتے ہیں بی ایچ یو میں نہ تو صاف پانی ہے اور نہ ہی بی ایچ یو میں صفائی کا کوئی خیال رکھا جاتا ہے۔
مقامی افراد نے مطالبہ کیا ہے کہ انکے علاقے میں موجود واحد بی ایچ یو کو سہولیات فراہم کی جائے تاکہ انکو علاج کے لیے پشاور اور دوسری جگہوں کا رخ نہ کرنا پڑے۔