ضلع مہمند میں 10 سال سے غائب گرلز ڈگری کالج دریافت
سی جے بشریٰ محسود
تحصیل حلیمزئی میں تقریباً 40 کنال اراضی پر تعمیر کردہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چاندہ کا باقاعدہ افتتاح 2010 میں اس وقت کے منتخب ممبر قومی اسمبلی ملک بلال رحمان نے کیا تھا جس کے بعد اس کالج میں کبھی تدریسی عمل کا آغاز نہیں ہوا۔
پچیسویں آئینی ترمیم کے بعد سابقہ فاٹا خیبر پختون خواہ کا حصہ بن چکا ہے جس کے بعد فاٹا سیکرٹریٹ میں قائم ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ کا تمام ریکارڈ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا۔
لیکن گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چاندہ کا ریکارڈ ایک بھی ڈپارٹمنٹ کے پاس موجود نہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں فیصل آباد یونیورسٹی سے فارغ ایک مقامی باشندے وسید اللہ مہمند نے بتایا کہ میں مذکورہ بلڈنگ سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر رہتا ہوں لیکن آج تک مجھے یہ نہیں پتہ کہ یہ گرلز ڈگری کالج ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے یہاں شیشے کا ایک کارخانہ تھا، بعد میں ایف سی والے رہنے لگے اور آج کل اس میں لیویز اور خاسدار فورس رپائش پذیر ہے۔
وسیداللہ نے بتایا کہ یہاں لڑکیوں کو تعلیم کے حصول میں بہت مشکلات ہیں جو طالبات حالات کا مقابلہ کر کے میٹرک پاس کرتی ہیں تو کالج نہ ہونے کی وجہ سے وہ آگے تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔
2010 سے بند گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چاندہ کا ایشو ممبر قومی اسمبلی نثار مہمند نے اٹھایا۔
ٹی این این کی جانب سے اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر نثار مہمند نے بتایا کہ ضلع مہمند میں 90 فیصد طالبات پرائمری کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں، ”میں نے چاندہ ڈگری کالج کا ایشو اسمبلی کے فلور پر اٹھایا لیکن آج تک جواب نہیں دیا گیا اور نہ مجھے مطمئن کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ میرے سوالات کا فلور پر مجھے جواب دیا جائے، ایک خاص پالیسی کے تحت ضم اضلاع میں تعلیم کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
نثار مہمند نے بتایا کہ الیکشن میں خواتین کا ووٹ لازمی قرار دیا جاتا ہے لیکن جب تعلیم کی بات آ جاتی ہے تو کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا، ”کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ قبائلی خواتین ہر میدان میں اتنے پیچھے کیوں ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مجھے صرف یہ پتہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے مذکورہ کالج کا وزٹ کیا ہے لیکن انہوں نے وزٹ میرے سوال کا جواب دینے کیلئے کیا تھا لیکن جواب آج بھی نہیں دیا گیا، ”آج بھی کالج میں سامان پڑا ہوا ہے، طالبات کیلئے وہاں کوئی بندوبست نہیں، حکومت 100 ارب روپے کا بتا رہی ہے لیکن کالج کیلئے ایک گاڑی نہیں دے سکتی، اگر ہمارا مسئلہ حل نہیں کیا تو احتجاج کے علاوہ ہمارے ساتھ کوئی اور آپشن موجود نہیں۔”
ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے مطابق اس وقت ضم اضلاع میں 40 کے قریب ڈگری کالجز ہیں جن میں 15 خواتین کے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق ضم اضلاع میں شرح خواندگی 28 فیصد ہے جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 8 فیصد ہے، پانچ میں سے صرف ایک لڑکی پرائمری ایجوکیشن پوری کرتی ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔
گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چاندہ میں انتظامی اور تدریسی عمل کیلئے الگ الگ بلاکس موجود ہیں جبکہ وہاں رہائشی بلاک بھی موجود ہیں جبکہ کھیل کیلئے ایک کھلا میدان بھی کالج کو میسر ہے۔
ذرائع کے مطابق اگر محکمہ تعلیم مذکورہ کالج میں دلچسپی لے تو 2021 سے وہاں تدریسی عمل کا آغاز ہو سکتا ہے۔
مریم(فرضی نام)، جس کا تعلق تحصیل حلیمزئی غلنی سے ہے، نے بتایا کہ بچپن سے میری خواہش تھی کہ میں ٹیچر بنوں، پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔
‘سیکنڈ ائیر کلیئر کرنے کے بعد میں مزید آگے پڑھنا چاہتی تھی لیکن ضلع مہمند کا واحد گرلز ڈگری کالج یکہ غونڈ ہم سے تقریباً 45 کلومیٹر دور ہے، میرے لئے وہاں ہر روز جانا مشکل تھا کیونکہ ایک طرف ہمارے رسم و رواج ہیں تو دوسری طرف ٹرانسپورٹ کے مسائل تھے”، مریم نے ٹی این این کو بتایا۔
انہوں نے کہا کہ یکہ غونڈ کالج میں ہاسٹل ہے لیکن وہاں رہنے کا بندوبست نہیں کیونکہ ہاسٹل بلڈنگ میں طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے۔
مریم نے بتایا کہ چاندہ گرلز ڈگری کالج کو اگر فعال کیا جائے تو اس سے یہاں کی سینکڑوں طالبات مستفید ہو سکیں گی۔
ٹی این این کے ساتھ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج چاندہ کے حوالے سے گفتگو میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ بخت زمین مینگل نے بتایا کہ فاٹا سیکرٹریٹ میں کالجز کیلئے صرف ایک ڈپٹی ڈائریکٹر اور کلرک بیٹھا ہوتا تھا، ایک طرف ان پر بوجھ زیادہ تھا جبکہ دوسری طرف وہ اتنے ماہر نہیں تھے جس کی وجہ سے صحیح کام نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں تعلیم کی بہتری کیلئے ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ تمام ممکن اقدامات اٹھا رہا ہے، ”چاندہ ڈگری کالج کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، ڈپٹی کمشنر مہمند اور محکمہ تعلیم مہمند کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
انہوں نے کہا یہ مرجر کے ثمرات ہیں کیونکہ ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے کی نشاندہی پر اس کالج کے حوالے سے اسمبلی کے فلور پر آواز اٹھائی جس پر ہم سے جواب طلب کی گئی، ” چونکہ ابھی تک ضم اضلاع کے کالجز ہمارے پاس نہیں تھے، اب ہمارے ڈومین میں ہیں تو ہم نے وہاں کا وزٹ کیا، سی اینڈ ڈبلیو کے نمائندے ہمارے ساتھ تھے جنہوں نے یہ کالج تعمیر کیا ہے، ”ہم اس کالج کو فعال بنانے کیلئے تمام ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔”
انہوں نے ایک بار پھر بتایا کہ کالجز کیلئے ان کے پاس صرف ڈپٹی ڈائریکٹر اور کلرک ہوتا تھا، یہ سب ڈیل کرنا مشکل تھا، وہ ماہر بھی نہ تھے، اب چونکہ الگ ڈائریکٹریٹ ہیں، تقریباً 200 بندے کالجز کیلئے کام کر رہے ہیں، اب کالجز زیادہ ہوئے ہیں،
سٹاف میں بھی اضافہ ہو گا، ”مرجر کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ ایشو اسمبلی کے فلور پر اٹھایا گیا، ہم سے جواب طلب کی گئی، ہم نے وہاں کا وزٹ کیا، کالج کا کسی کو نہیں پتہ تھا، پھر ہم سی اینڈ ڈبلیو کے توسط سے وہاں پہنچے۔”