شمالی وزیرستان، سردیوں کے میوے ”چلغوزہ” کا کاروبار ٹھپ کیوں؟
پاک افغان غلام خان بارڈر کی بندش اور راستے میں مبینہ طور پر انتظامیہ کی جانب سے بھاری بھر کم خود ساختہ کسٹم ٹیکس لینے کے باعث چلغوز کی تجارت بری طرح متاثر ہونے لگی اور شمالی وزیرستان کے تاجروں کے اربوں روپے ڈوبنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
بنوں میرانشاہ روڈ پر واقع ایشیاء کی سب سے بڑی چلغوزہ منڈی سے اندرون ملک اور بیرون ممالک خصوصاً چین چلغوزہ سپلائی کیا جاتا ہے لیکن پاک افغان غلام خان بارڈر بند ہونے اور لاکھوں من چلغوزہ پیدا کرنے والے پہاڑ بارڈر پر خاردار تار لگانے کے باعث افغانستان میں رہ جانے سے سردیوں کے موسم کے اس خشک میوے کی گرم تجارت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔
تاجر کہتے ہیں کہ راستے میں کسٹم کے نام پر بھاری بھر کم خود ساختہ ٹیکس لینے اور پاک افغان غلام بارڈر بندش کے باعث شمالی وزیرستا ن شوال کا چلغوزہ افغانستان اور وہاں سے ہوائی جہازوں کے ذریعے براہ راست چین سپلائی کیا جاتا ہے، چین بھی اب یہی چلغوزہ پسند کرتا ہے اور ہمارا کاروبار چین کے ساتھ بھی مشکل میں پڑ گیا ہے حالانکہ افغانستان سے سپلائی کیا جانے والا چلغوزہ ہمارا اپنا چلغوز ہے۔
تاجروں کے مطابق ناقص پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کا اپنا چلغوز افغانستان خوست میں بیٹھے تاجر اندرون ملک اور بیرون ملک سپلائی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب تاجر منڈی میں چلغوزہ پہنچا دیتے ہیں لیکن بولی بہت کم ہوتی ہے، دوسری طرف کچھ دنوں کیلئے رکھے جانے پر اس کے وزن میں بھی نمایاں کمی آ جاتی ہے جو نقصان کا باعث بنتی ہے۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ پاک افغان غلام خان بارڈر کھولا جائے اور کسٹم کے نام پر خود ساختہ ٹیکس ختم کیا جائے تو نہ صرف ملکی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ ہو گا بلکہ تاجر بھی بھاری نقصان اُٹھانے سے بچ جائیں گے۔