قبائلی اضلاعکورونا وائرس
”اس ڈر سے ٹیسٹ نہیں کرواتا تھا کہ کہیں میرا کرونا نہ ہو”
شاہ نواز آفریدی سے
”میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور دوائی بھی لیں مگر خوف اور ڈر سے ٹیسٹ نہیں کرواتا کہ کہیں میرا کرونا نہ ہو مگر میں نے دل ہی میں تسلیم کیا کہ میرا کرونا ہی ہے۔”
یہ باتیں ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ایل ایل بی تھرڈ ائیر کے سٹوڈنٹ محمد خالد نے کیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کے کہنے کے بعد کہ تم کرونا سے صحت یاب ہو چکے ہو، پھر بھی سخت خوف میں مبتلا تھا اور سر درد و ذہنی دباؤ کی وجہ سے باتیں نہیں کر سکتا تھا جس کی وجہ سے گھر کے لوگ بہت پریشان تھے اور الزام لگا کر کہتے کہ تم نشہ کرنے لگے ہو جو میری لئے اور بھی پریشانی کا باعث تھا۔
محمد خالد کے مطابق ماں ان حالات میں میرے قریب آتی اور میرے ساتھ باتیں کرتی حالانکہ میں گھر کے دوسرے افراد کو اپنے قریب آنے نہیں دیتا تھا کیوں کہ جو بھی میرے قریب آتا تو مجھے غصہ آتا اور کہتا کہ یہ لوگ قریب کیوں آ رہے ہیں۔
ضلع خیبر کی ڈوگر ہسپتال میں مینٹل ہیلتھ پر کام کرنے والی سائیکالوجسٹ عرشی ارباب کا کہنا ہے کہ کرونا وباء کے دوران ذہنی مریض پہلے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا وبا کے دوران گھبراہٹ، خوف میں مبتلا ہونا اور نیند کا نہ آنا جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
سائیکالوجسٹ نے کہا کہ بچوں کا گھر پر رہنا اور مردوں کا کاروبار خراب ہو کر گھر میں مسلسل مقیم رہنا اور ہر کام میں مداخلت کرنے سے مردوں کے لیے غصے جبکہ گھر کی عورتوں کیلئے بھی پریشانی کا باعث بننے لگا۔
باڑہ کا رہائشی میڈیسن کا کاروبار کرنے والا عرفان اللہ کا کہنا تھا کہ کرونا کی بیماری سے تو میں صحت یاب ہو گیا مگر مجھے اب بھی ہر وقت ٹینشن اور ڈیپریشن ہوتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ میں اب بھی ذہنی بیماری کی دوائی استعمال کرتا ہوں لیکن مجھے خوف رہتا ہے کہ پھر بیمار نہ ہو جاؤں خاص طور پر اس وقت جب کسی بیمار کو دیکھتا ہوں تو ڈرتا ہوں اور خوف محسوس کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ وباء کے دنوں میں میری نیند 24 گھنٹے میں چار گھنٹے سے بھی کم تھی اور ہر وقت ڈرتا تھا کہ کہیں مر نہ جاؤں۔
آغا خان یونیورسٹی کراچی کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں کرونا وبا کی وجہ سے 75 فیصد لوگ ذہنی بیماری کے شکار ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک ریسرچ کے مطابق ایتھوپیا میں 33 فیصد، امریکہ میں 45 فیصد جبکہ ایران میں 60 فیصد لوگ ذہنی بیماری کے شکار ہو چکے ہیں۔
سائیکالوجسٹ عرشی ارباب کا کہنا تھا کہ بے روزگاری، تعلیمی اداروں کی بندش اور تمام لوگوں کا گھروں میں رہنا لوگوں میں ذہنی بیماری کی بڑی وجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وباء کی وجہ سے نہ صرف مرد و خواتین بلکہ طلباء بھی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ذمہ دار ڈیورہ کیسل کے مطابق وہ لوگ ذہنی بیماری اور دباؤ کے شکار ہیں جو پہلے سے ہی ذہنی بیمار یا وہ لوگ جو عمر رسیدہ ہیں۔
نفسیاتی ماہرین کے مطابق اس عالمی وبا میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اپنے پسندیدہ مشغلوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا چاہیے تاکہ ذہنی صحت برے اثرات سے بچا جا سکے۔