خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزم

مردہ جانوروں کو محفوظ رکھنے کا فن عبد الرحمٰن سے سیکھیں

سٹیزن جرنلسٹ محمد الیاس

خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکهنے والا عبدالرحمن صوبے کا واحد سرکاری حنوط کار ہے جو 36 سالوں سے پرندوں اور جانوروں کی حنوط کاری کے فن وابستہ ہے۔

پرندوں اور جانوروں کے مرنے کے بعد انہیں زندہ شکل ميں محفوظ رکھ لیناحنوط کاری کہلاتا ہے۔جانوروں کے مرنے کے بعد کھال اتار کرمختلف کیمیکلزلگائے جاتے ہیں اور اسے سُکھایا جاتا ہے۔اس کے بعد ان میں روئی یا فایئبر بھر کر اصلی صورت دی جاتی ہے۔

حنوط کار عبدالرحمن نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا کہ نایاب جنگلی پرندوں اور جانوروں کو مرنے کے بعد حنوط کرکے وائلڈ لائف میوزیم میں رکھتے ہیں۔
اب تک وائلڈ لائف میوزیم میں 250 کے قریب پرندے اور جانور حنوط کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سکولوں کے مطالبے پر ان کی لیبارٹریوں کے لیے بھی جانوروں کو حنوط کیا گیا ہے، اسی طرح محکمے کے انفارمیشن سنٹر ڈونگا گلی، مانسہرہ اور کوہاٹ کے لیے بھی جانوروں کو حنوط کیا گیا ہے۔

عبدالرحمن نے کہا کہ میں میڑک کے بعد حنوط کاری کا کام اپنے ماموں جو لاہور زو میں حنوط کار تھے ان سے 6 سالوں میں سیکھا ہے۔

عبدالرحمن نے کہا کہ پرندوں کو حنوط کرنے پر 1 سے 2 دن جبکہ بڑے جانوروں پر 15 سے 30 یا 40 دن بهی لگتے ہیں۔ پرندوں اور جانوروں کے جسامت مطابق ان کو حنوط کرنے میں وقت لگتا ہے۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ابھی تک کوئی دوسرا حنوط کار نہیں دیکھا اور نہ وائلڈلائف محکمے نے کسی اور شخص کو ٹریننگ دی ہے۔ میں  نے اپنے بیٹے احسان اللہ کو یہ کام سکھایا ہے۔ اگر گاؤں میں کسی کا پرندہ تیتر، مور وغیرہ مر جائے تو وہ گاؤں کے لوگوں کی خواہش پر اسے حنوط کرلیتے ہیں۔

عبدالرحمن حنوط کار نے گفتگو کرتے ہوئےبتایا کہ اچھے میٹریل سے ایک جانور کی حنوط کاری پر تقریبا 60 ہزار روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔اگر پرندے کی حالت صحیح ہو حنوط کرتے وقت اور اچھے میٹریل سے حنوط کیا جائے تو خراب نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں حنوط کاری کےجو ٹیکنیک ہیں وہ کافی پرانے ہیں اب باہر کے ممالک میں نئے جدید طریقے آئے ہے جس سے بہت اچهےاور خوبصورتی سےحنوط کاری ہوتی ہے اگر وہ ٹیکنالوجی اور نئے سازوسامان ہمارے ہاں آجائے تو ہمارے کام میں بهی جدت اسکتی ہیں۔
عبدالرحمن نے کہا کہ محکمہ وائلڈ لائف میں حنوط کاری کی ایک ہی پوسٹ ہے کام میں آسانی کے لئے اس کے ساتھ ایک اسسٹنٹ بھی بھرتی کرنا چاہیے۔


عبدالرحمن نے بتایا کہ حنوط کرنے کے لیے مختلف جگہوں سے جنگلات سے مرے ہوئے نایاب پرندےاور جانور لاتے ہیں کبهی کبھار کچھ نایاب جانور اگر مرجائے تو لوگ وہ بھی میوزیم کے لیے دے دیتے ہیں جس میں ہمارے پاس میوزیم میں موجود بہت نایاب پرندہ ویسٹرن ہارنڈ ٹریگوپان بھی ہے جو ایک شخص نے لاکردیا تھا اسی طرح گذشتہ ماہ ایک نایاب برفانی چیتا جو کہ مرا ہوا تھا اس کو حنوط کرکے پشاور کے چڑیا گھر میں رکھ دیا ہے۔
پاکستان میں حنوط کاری کے حوالے سے پرائیویٹ یا سرکاری طور پر کوئی سکول یا ادارہ نہیں لیکن اب وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ والے پشاور چڑیا گھر میں ایک سکول بنا رہے ہیں جس میں حنوط کاری کا ہنر سکھایا جائے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button