‘اب تم بڑی ہو گئی ہو، پڑھائی کو چھوڑو گھر کے کام کاج سیکھ لو’
سٹیزن جرنلسٹ رضیہ محسود
‘میرا ایک بھائی تھا جو چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اور میں بھی چوتھی جماعت میں تھی میرا بھائی پڑھ رہا ہے جبکہ مجھے سکول سے اٹھا لیا گیا ہے یہ کہہ کر کہ اب تم بڑی ہو گئی ہو اب تمہیں گھر کے کام کاج سیکھنے چایئیں، میرا یہ خواب تھا کہ میں پڑھ لکھ کر کچھ بن جاؤں اور اپنے علاقے کی خدمت کر سکوں لیکن اب وہ پورا نہیں ہو سکتا کیونکہ اب میں نہیں پڑھ سکتی۔’
یہ باتیں جنوبی وزیرستان تحصیل تیارزہ سے تعلق رکھنے والی گیارہ سالہ مناحل کی ہیں جس کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا مگر کرونا لاک ڈاوون کی وجہ سے اس کا یہ ارمان ادھورا رہ گیا۔
جنوبی وزیرستان میں یہ قصہ صرف ایک مناحل کا نہیں بلکہ درجنوں ایسی لڑکیاں ہے جن کو انکے گھر والوں نے تعلیم حاصل کرنے سے منع کیا ہے۔
کانی گرم سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکر اورنگزیب برکی کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سال جب لڑکیوں کی عمریں گیارہ بارہ سال سے اوپر ہوجاتی ہے تو گھر والے ان کو سکول جانے سے منع کر دیتے ہیں اور ان کی شادی کرنے کی سوچ شروع کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی لوگ لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنے غیرت کے برخلاف سمجھتے ہیں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے لوگوں کی جو سوچ ہے وہ ایک طریقے سے تبدیل ہو سکتی ہے کہ لڑکیوں کے لئے الگ سکول بنائیں جائے انکے پردے اور سیکیورٹی کے انتظامات ہو سکیں اور ان میں ایک شعوری لہر آجائیں۔
اورنگزیب برکی کی باتوں کی تصدیق گورنمنٹ پرائمری سکول تودہ چینہ کی ٹیچر ثمینہ نے بھی کی ہے ثمینہ کا کہنا ہے کہ پہلے انکے ساتھ کلاس میں 50 لڑکیاں تھی اور اب کرونا وبا کی وجہ سے ان کے پاس تعداد 20 رہ گئی ہے۔
‘وہ آپس میں یہ باتیں کرتی تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں گی، میں انجینئر بنوں گی، ان کی یہ باتیں سن کر مجھے بہت اچھا لگتا تھا کہ اگر اس علاقے کی بچیوں کو کُچھ سپورٹ مل جائے تھوڑا اچھا ماحول میسر آجائے، انکے والدین کے ذہنوں میں یہ تبدیلی آجائے کہ جیسے لڑکوں کی تعلیم ضروری ہے اسی طرح لڑکیوں کیلئے بھی تعلیم بہت ذیادہ ضروری ہے’ ثمینہ نے وضاحت کی۔
محکمہ تعلیم کے مطابق جنوبی وزیرستان میں تمام سکولوں کی تعداد 745 ہے جس میں 280 سکول لڑکیوں کے ہیں
جبکہ کمیونٹی سکولوں کی تعداد 75 ہے۔
جنوبی وزیرستان کے ضلعی تعلیمی آفیسر قدیم خان کا کہنا ہے کہ کرونا کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی کافی متاثر ہوئی ہے، کوشش کر رہا ہوں کہ انکے سکولوں کو خوبصورت بناوں وہاں کا وزٹ کروں اور ٹیچروں پر بھی پریشر ڈالوں وہاں پر پیرنٹ ٹیچر کمیٹیاں بھی بن جائے اور والدین کو بھی بتائیں گے کہ جس طرح بھی ہو اپنے بچوں کو سکول بھیجیں میڈیا پر بھی بتایا ہے کہ بچوں کو سکول بھیجا کریں’
تحصیل تیارزہ سے تعلق رکھنے والے شاہد خان کا کہنا ہے کہ میری پانچ بیٹیاں ہے اور سب کو سکول بھیجتا ہوں۔ شاہد کا کہنا ہے کہ مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو سکول نہ بیجھوں مگر میں کسی کی باتوں میں نہیں آتا، اسلام کہتا ہے کہ تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں پر فرض ہے پھر ہم کون ہوتے ہیں ان کو تعلیم سے منع کرنے والے۔
سکول ٹیچر ثمینہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان کی بچیوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں صرف ان کے والدین کے ذہنوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔