فیچرز اور انٹرویو

چترال، 2020 میں بھی خودکشیوں کا سلسلہ جاری، وجوہات کیا ہیں؟

عدنان الدین رومی

وادی چترال جہاں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مقام رکھتی ہے وہاں دوسری جانب چترال میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کا رجحان سب کیلئے نہایت تشویش کا باعث ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی 2019 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں سال 2019 میں خودکشی سے مرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار پانچ سو تھی جس میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال سے تھا۔

مذکورہ رپورٹ کے جاری ہونے کے  بعد خیبر پختونخواہ حکومت نے محکمہ صحت خیبر پختونخواہ کے ہمراہ چترال ایک ٹیم بھیجی جس نے چترال بھر میں مختلف کونسلنگ سیشنز لیے جو ایک عارضی عمل تھا جس کا تسلسل برقرار نہیں رکھا گیا۔ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ اتنی خودکشیوں اور  عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے باوجود ضلع بھر میں صوبائی حکومت کی جانب سے ایک  بھی سائیکاٹرسٹ  کی تقرری نہیں کی  گئی جو صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے حالانکہ ایسا ضلع جہاں خودکشی کا رجہان سب سے زیادہ ہے وہاں ویلج کونسل کی سطح پر بھی سائیکالوجسٹ اور سائیکاڑسٹ کی مستقل بنیادوں پر ضرورت ہوتی ہے۔

2019 میں جہاں اس ضلع میں خودکشیاں عروج پر تھیں وہاں 2020 میں بھی خودکشیوں میں کمی نہیں دیکھی گئی، ستمبر کے آخری ہفتے میں مختلف واقعات میں مسلسل تین دنوں میں تین لڑکیوں نے دریائے چترال میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ جہاں ایک طرف ایسے واقعات کو میڈیا میں رپورٹ کیا جاتا ہے وہاں دوسری جانب گھر والے اور علاقہ مکین ایسے واقعات پر چپ سادھ لیتے ہیں تاکہ گھر والوں اور علاقے کی بدنامی نہ ہو سکے۔

چترال بھر میں خودکشیوں میں اضافے کے بعد پاکستان کے  مختلف ریسرچرز نے خودکشیوں کی وجوہات جاننے کیلئے  چترال جا کر تحقیق کی۔ اس حوالے سے آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسرز نے بھی خودکشی کرنے والے چھ افراد کے خاندانوں کے ساتھ رہ کر فیملی ایتھنوگرافک ریسرچ کی تاکہ خودکشی کرنے  والے افراد کی خودکشی کرنے کی  وجوہات معلوم ہو سکیں۔ ریسرچ کے مطابق غربت اور گھریلو تشدد خودکشی کرنے کی بنیادی وجوہات تھیں۔ اس کے علاوہ ڈپریشن، والدین کی جانب سے بیٹیوں کو سپورٹ نہ کرنا، پڑھائی کی کمی اور میاں بیوی کے درمیان مسلسل لڑائی جھگڑے بھی خودکشی کرنے کی وجہ قرار دیئے گئے۔

پاکستان میں بدقسمتی سے مینٹل ہیلتھ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جس کی وجہ سے پاکستان بھر میں  خودکشی کرنے والوں  میں قدرے اضافہ ہو رہا ہے۔ مینٹل ہیلتھ کی سنجیدگی اور پاکستان بھر بالخصوص چترال میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے اضافے کے متعلق  جاننے کیلئے میں نے سینئر ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر ہمایون سے رابطہ کیا۔

ڈاکٹر ہمایون پبی ہسپتال نوشہرہ میں بطور ڈسٹرکٹ اسپیشلسٹ اپنے فرایض سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہمایون کا کہنا تھا کہ آج کے دور کے بیماریوں میں سب سے بڑی بیماری ذہنی مرض ہے اور ذہنی مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا  ہے۔ ان کا کہنا تھا بدقسمتی سے پاکستان میں نہ عوام  مینٹل ہیلتھ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور نہ ہی حکومت اس  طرف توجہ دے رہی ہے۔

خودکشی کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈاکٹر ہمایون کا کہنا تھا کہ پاکستان بھر میں زیادہ تر افراد غربت اور بیروزگاری کی وجہ   سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی جان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ اکثر عورتیں گھریلو تشدد سے تنگ کر اپنی جان لے لیتی ہیں۔

چترال میں خودکشیوں کے تعداد میں اضافے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چترال ایک پسماندہ علاقہ ہے اور ملک کے دیگر علاقوں کی طرح وہاں بھی غربت اور بے روزگاری خودکشیوں کی ایک بنیادی وجہ ہے، اس کے علاوہ وہاں اکثر لڑکیوں کی کم عمر میں ہی شادی کرا دی جاتی ہے جو اکثر ان کے مرضی کے خلاف ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا  شکار ہو جاتی ہیں اور پھر گھر میں لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر ہمایون کا کہنا تھا کہ چترال بھر میں ایک بھی سائیکاٹرسٹ کا موجود نا ہونا انتہائی تشویش کی بات ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہاں ایمرجنسی بنیادوں پر ایک سے زیادہ سائیکاٹرسٹ کی تقرریاں  کرے۔ سائیکاٹریسٹ کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سائیکاٹریسٹ ہر یونین کونسل کی سطح پر موجود ہونا چاہیے تاکہ لوگ اپنے ذہنی مسئلے ان کے پاس لے جا سکیں اور وہ ان کا بہترین علاج کر پائیں تاکہ قیمتی جانوں کو  بچایا جا سکے۔

ڈاکٹر ہمایون نے میں زور دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مینٹل ہیلتھ  کے متعلق لوگوں کو شعور دینے کیلئے مدرسوں اور سکولوں میں مختلف سیمینارز منعقد کرے اور چترال جیسے علاقوں میں ری ہیبیلیٹیشن سنٹرز بنائے تاکہ وہاں ڈپریشن کے  مریضوں کا علاج کیا جا سکے۔

چترال میں سالانہ کئی افراد خودکشی کر کے اپنی زندگیوں کے چراغ گل کر دیتے ہیں اور کئی افراد خودکشی کی کوشش کرنے کے دوران بچ جاتے ہیں۔ اس طرح کی ایک خاتون جن کا تعلق چترال سے ہے اور جنہوں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی پر خوش قسمتی سے اس میں ناکام رہیں ان سے میں نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

شازیہ کا تعلق لوور چترال سے ہے اور ایک سرکاری سکول میں استانی کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ شازیہ کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کی باتوں کی وجہ سے تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ خودکشی کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے شازیہ کا کہنا تھا کہ اس کے کردار پر لوگوں نے غلط الزامات لگائے تھے جس کی وجہ سے اس کی علاقے میں کافی بدنامی ہوئی، حالانکہ شازیہ کے گھر والوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا پر وہ لوگوں کی باتوں سے اکتا گئی تھیں۔

شازیہ کا کہنا تھا اس نے خودکشی سے پہلے  اپنی ایک دوست کو آگاہ کر دیا تھا کہ وہ اب مزید لوگوں کے طعنے اور جھوٹ برداشت نہیں کر سکتیں اس لئے وہ اپنی زندگی کا چراغ ہمیشہ کیلئے گل کرنے جا رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ زندہ بچ جانے پر بہت خوش ہیں اور رب کی شکر گزار ہیں کیونکہ اگر وہ خدانخواستہ مر جاتیں تو ان کے گھر والوں بالخصوص ان کے والد اور والدہ کو بہت صدمہ پہنچتا جنہوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

شازیہ نے حکومت سے گلہ بھی کیا کہ اس تمام تر صورتحال میں جب میں ڈپریشن کا شکار تھی اور اپنی جان لینے پر مجبور ہو گئی تھی اس وقت ضلع  بھر میں ایک  ایسا کوئی ڈاکٹر یا صحت کا مرکز نہیں تھا جہاں سے وہ اپنے ڈپریشن کا علاج کراتیں کیونکہ وہ ان دنوں شدید ذہنی دباو کا شکار تھیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر چترال میں سائیکٹرسٹس کی تقرریاں کرنی چاہیے تاکہ قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔

شازیہ نے  ان تمام لوگوں کو جو مختلف وجوہات کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہو جاتے ہیں ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے مسائل سے دوسروں کو آگاہ کریں اور اگر کوئی ان کو تنگ کر رہا ہو تو قانون کا سہارا لیں تاکہ اس شخص کو  قانون کے مطابق بھر پور سزا ملے، ”انسان کی جان بہت قیمتی ہے اس کو بنا سوچے سمجھے اور جذبات میں آکر گنوانا نہیں چاہیے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button