‘ہسپتال پہنچنے سے پہلے گاڑی میں بچے کی پیدائش ہوئی لیکن ہم اس کو بچا نہ سکے’
سٹیزن جرنلسٹ بشریٰ محسود
علاج معالجے کی سہولیات ہر شہری کا بنیادی اور آئینی حق ہے، ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ہر شہری کو علاج معالجے کی یکساں سہولیات میسر ہیں۔ لیکن اس کے برعکس وزیر ستان کے شہريوں کی اکثريت اس حق سے محروم ہے۔
عصر کا وقت تھا کہ ہم مولوے خان سرائے ہسپتال پہنچے جہاں ہمیں بتایا گیا کہ پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد این جی اوز کا سٹاف یہاں سے چلا گیا ہے۔ آپ کو علاج کیلئے ٹانک یا ڈیرہ اسماعیل خان جانا پڑیگا۔
یہ کہنا ہےجنوبی وزیرستان کے تحصیل بروان سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ آفرین کا جس کا بچہ پیدا ہونے کے چند ہی منٹس بعد خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عصر کے وقت تکلیف شروع ہوئی جس کے بعد ہم قریب واقع مولوے خان سرائے ہسپتال پہنچے جہاں سے میں نے ایک مہینہ پہلے فیمیل سٹاف کے زیر نگرانی اپنا چیک اپ کروایا تھا۔
لیکن اب یہاں کوئی سٹاف موجود نہیں تھا، ہمیں بتایا گیا کہ وہ ایک این جی او کے تحت کام کرتے تھے جو پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد یہاں سے چلے گئے ہیں، اور اب آپ کو ڈیرہ اسماعیل خان یا ٹانک جانا پڑیگا۔
آفرین نے بتایا کہ شام کے وقت گاڑی بڑی مشکل سے ملتی ہیں، میرے ساتھ آئے ہوئے رشتہ داروں کی تگ و دو سے گاڑی کا بندوبست ہو گیا اور ہم نے ڈیرہ اسماعیل خان جانے کا فیصلہ کیا، میرے تکلیف میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔
جنوبی وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان تقریبان 160 کلومیٹر کا فاصلہ ہیں جہاں پہنچنے میں کم از کم تین گھنٹے لگتے ہیں، بدحال سڑکیں اور دیگر مسائل تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے سے پہلے ہم ایک سائیڈ پر کھڑے ہو گئے اور وہاں بچے کی پیدائش ہو گئی جو چند ہی منٹس زندہ رہنے کے بعد فوت ہو گیا لیکن میرے تکیلف میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، میرے حالات انتہائی خراب تھی، میں ناامید ہو چکی تھی۔
اس کے بعد کئی دن ڈیرہ اسماعیل خان کے ہسپتال میں میرا علاج چلتا رہا، نامناسب حالات، سہولیات کا فقدان بچے کی پیدائش اور پھر اس کی موت نے مجھے ذہنی مریض بنایا تھا۔
آفرین نے بتایا کہ ہم خواتین صحت کے بنیادی سہولیات سے بالکل محروم ہیں جس کا کسی کو نہ تو کوئی فکر ہیں اور نہ ہی کسی کو اس بات کا کوئی احساس ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم خواتین چھوٹے چھوٹے تکالیف گھروں میں ہی برداشت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہوتا ہیں کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹر ہے ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو دوائیاں اور دیگر الات نہیں ہیں۔
اس کی مطابق زیادہ تر خواتین غربت کی وجہ سے علاج کیلئے ٹانک اور ڈی آئی خان نہیں جا سکتے۔ ہمارے رسم و رواج کی مطابق کوئی خاتون اکیلی سفر نہیں کر سکتی، اس کے ساتھ مرد کا جانا لازم ہوتا ہیں جس کیوجہ سے بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہیں۔کیونکہ مرد اکثر اوقات گھر پہ نہیں ہوتے یا دوسرے شہر ہوتے ہے
افرین نے بتایا کہ یہ ایک خاتوں کی نہیں ہر گھر کی کہانی ہیں،یہاں ہسپتال میں نہ تو کوئی سہولتیں ہیں اور نہ سٹاف موجود ہوتا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ہسپتالوں کی بلڈنگز بڑے شاندار بنائیں گئے ہیں لیکن اندر کی حالات کا کسی کو نہیں پتہ، ان بلڈنگز سے زیادہ یہاں سٹاف اور دیگر سہولیات کی فراہمی ضروری ہیں۔
صحت کے ابتر صورتحال کے حوالے سے مقامی مشر فریدون برکی نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان کی عوام کو علاج و معالجہ کے معاملے میں درپیش مسائل بہت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں لینڈ مائنز کیوجہ سے ہزاروں لوگ معذور ہو چکے ہیں، لیکن یہاں ان کی ممکن علاج کیلئے کوئی ہسپتال موجود نہیں اور اکثر عارضی معذوری مستقل معذوری میں تبدیل ہو جاتی ہیں
فریدون نے بتایا کہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال وانا میں عملہ بھی کم ہیں اور زیادہ تر آلات بھی موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کروڑوں روپے لگا کر ہسپتالوں کے بلڈنگز بنائے گئے ہیں لیکن ابھی تک ان کو سٹاف فراہم نہیں کی گئی جس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ہسپتالوں اور صحت کے دیگر مراکز کو ضروری الات فراہم کی جائیں اور اس میں 24 گھنٹے سروس یقینی بنانے کیلئے حکومت موثر اقدامات اٹھائیں۔
لیڈی ڈاکٹرز کی تعیناتی اور میٹرنٹی سروسز بہتر بنانا یہاں کی عوام کا بنیای حق ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے تحصیل تیارزہ سے تعلق رکھنے والے ٹرائبل یوتھ موومنٹ کے رہنماء و سماجی کارکن قیوم شیخ نے بتایا کہ یہاں ایک ڈسپنسری ہیں جس کا افتتاح 2011 میں کیا گیا تھا۔ لیکن حالات خراب ہونے کے بعد یہ مکمل طور پر غیر فعال ہیں۔
ہم نے اس حوالے سے ڈی ایچ او سے بات کی تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحصیل تیارزہ کے جس علاقے میں یہ ڈسپنسری بنی ہیں وہ بہت پسماندہ ہیں اور باقی علاقوں سے بھی کٹ چکی ہیں جس کیوجہ سے مریضوں کو اذیت سے گزرنا پڑتا ہیں۔
سارے روڈز کچے ہی، ہم اپنے مریضوں کو مولوے خان یا وانا ہسپتال لے جاتے ہیں جس میں تقریباپانچ گھنٹے لگتے ہیں۔
قیوم شیخ نے بتایا کہ محکمہ صحت اور حکومت کو احساس تک نہیں کہ اتنی بڑی آبادی صحت کے تمام تر بنیادی اور ضروری سہولیات سے محروم ہیں جس سے لوگوں کے احساس محرومی بڑھ رہی ہیں
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر جنوبی وزیرستان ولی اللہ نے بتایا کہ سینئر ڈاکٹرز جنوبی وزیرستان میں کام کرنے کیلئے تیار نہیں۔جس کیوجہ سے یہاں سٹاف کی کمی کا سامنا رہتا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں حکومت ڈاکٹرز کو بندوبستی علاقوں کی نسبت زیادہ تنخواہیں اور مراعات دیں تو ڈاکٹرز کام کرنے کیلئے آئیں گے۔
ولی اللہ نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں زیر تعمیر سول ہسپتال سراروغہ،ٹی ایچ کیوں ہسپتال کانیگورم اور ٹی ایچ کیوں ہسپتال مکین جلد پایہ تکمیل تک پہنچیں گے جس سے جنوبی وزیرستان کی عوام کو بہت فائدہ ہوگا اور انہیں علاج کیلئےبنوں اور ڈی ائی خان نہیں جانا پڑیگا۔
انہوں نے کہا ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال وانا پر بہت زیادہ بوجھ ہیں اور ڈاکٹرز کی بھی کمی ہیں، ہم اس کوشش میں ہیں کہ اس کو اپ گریڈ کریں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے بتایا کہ جو تنخواہیں ٹانک اور ڈی آئی میں ڈاکٹروں کو ملتی ہیں وہ جنوبی وزیرستان میں کام کرنے والوں کو بھی دی جاتی ہیں جس کیوجہ سے اکثر ڈاکٹر اثرورسوخ کی بنیاد پر تعیناتی کے چند دن بعد ہی اپنے تبادلے کرواتے ہیں۔ جس کیوجہ سے وزیرستان کی عوام کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہیں