قیام پاکستان کے وقت سے لنڈیکوتل میں آباد مسیحی برادری کے گھر مسمار
لنڈی کوتل میں قیام پاکستان سے آباد کرسچن کمیونٹی کے چھ گھروں میں آباد کئی خاندانوں کو بے گھر کر دیا گیا۔
جیل میں توسیع کی غرض سے نئی تعمیر اور پولیس کے لئے سرکاری دفاتر کی تعمیر کی غرض سے یہاں کے گھروں میں رہائش پذیر تیس خاندانوں کو گھر خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا تھا۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل محمد عمران نے ایک خاندان کو تحصیل کمپاؤنڈ کے اندر عارضی بنیاد پر رہنے کے لئے گھر دیا جبکہ ایک خاندان کو پی ٹی وی کالونی میں گھر دیا گیا جبکہ باقی چار گھرانے تاحال ادھر ادھر ٹھوکریں مارنے پر مجبور ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ارشد مسیح اور مختیار عالم نے کہا کہ کہ کرسچن کمیونٹی کے گھروں کو مسمار کرنا ظلم ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحصیل کمپاؤنڈ میں جیل کے احاطے میں قائم ان کے گھروں کو مسمار کرنے سے وہ دربدر ہو گئے، 15 دنوں کے مختصر نوٹس پر ان کو گھر خالی کرانے کا کہنا کہاں کا انصاف ہے، کوئی متبادل جگہ بھی نہیں دی گئی ہے، ہماری خواتین اور بچے بے گھر ہو کر کہاں جائیں گے، جیل میں توسیع کے منصوبے کو اس وقت تک موخر کر دیا جانا چاہئے تھا جب تک ان کو متبادل جگہیں نہ دی جاتیں۔
ارشد مسیح نے بتایا کہ ان کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے یہاں مقیم ہے اور مختصر نوٹس پر ان کو گھر خالی کرنے کا حکم دینا انصاف کی بات نہیں، حکومت کو چاہئے تھا کہ ایک سال پہلے بتا دیتی۔
انہوں نے کہا کہ کرسچئن کمیونٹی کے لئے فنڈز ملنا چاہئیں تاکہ وہ اپنے گھر بنا سکیں، فی الحال چھ گھروں کو مسمار کر دیا گیا جس میں تیس خاندانوں کے افراد رہائش پذیر تھے۔