خیبر پختونخوا

سانحہ اے پی ایس سے متعلق جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک سکول سے متعلق جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں ہوئی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو ہم چلائیں گے، حکومت کو ایکشن لینا چاہیے تاکہ ایسے واقعات نہ ہوں، وہ لوگ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے حاصل کیا۔ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا آپ چاہتے ہیں سکیورٹی میں غفلت کے ذمہ داروں کو بھی سزا ملے؟

اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے کہا کہ ہم زندہ دفن ہو چکے ہیں، سانحہ آرمی پبلک ٹارگٹ کلنگ ہے، ایک ہال میں جمع کر کے سب کو قتل کیا گیا۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا اٹارنی جنرل سن لیں، یہ متاثرین کیا چاہتے ہیں، ملک کا المیہ ہے کہ حادثے کے بعد صرف چھوٹے اہلکاروں پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے، اٹارنی جنرل صاحب اب اس روایت کو ختم کرنا ہو گا، آپ کو سزا اوپر سے شروع کرنا ہو گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ سکیورٹی اداروں کے پاس اطلاعات تو ہونی چاہیے تھیں، جب عوام محفوظ نہیں تو بڑی سیکیورٹی کیوں رکھی جائے، جو سکیورٹی کے ذمہ دارتھے ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، اتنا بڑا سکیورٹی لیپس کیسے ہوا؟

سپریم کورٹ نے اے پی ایس سانحے سے متعلق بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور اس رپورٹ پر اٹارنی جنرل کے کمنٹس کو پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے امان اللہ کنرانی کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے سانحہ اے پی ایس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو 6 دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں140 سے زائد طلبہ شہید ہوگئے تھے۔

اپریل 2018 میں بچوں کے والدین کی درخواست اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔ والدین نے مطالبہ کیا تھا کہ اس معاملے میں ایک غیر جانبدار جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ اسے نظر انداز کرنے والے متعلقہ حکام کو سبق سکھایا جاسکے۔

عدالت عظمیٰ نے 5 اکتوبر 2018 کو کیس کی سماعت کے دوران کمیشن کی تشکیل کے لیے تحریری احکامات جاری کیے تھے۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں اے پی ایس سانحے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button