سٹیزن جرنلزمقبائلی اضلاع

‘میری 6 سال کی دعاؤں اور دواؤں کے بعد پیدا ہونے والے بچے کو ڈاکٹروں نے مارا ہے’

 

مصباح الدین اتمانی

‘شادی کے بعد 6 سال تک انتظار کرنے کے بعد اللہ نے ہماری سن لی تھی اور میرا حمل ٹہر گیا تھا لیکن مسیحآووں  نے اس ننھی روح کو میرے گود میں سانس لینے سے قبل ہی مار دیا’

قبائلی ضلع باجوڑ کے تحصیل خار کی رہنے والی حلیمہ بی بی اپنے نومولود بچے کی موت کا ذمہ دار محکمہ  صحت کے اہلکاروں کوسمجھتی ہیں۔ حلیمہ کی شادی 18 سال کی عمر میں ہوئی تھی اور چھ سال تک اولاد کی نعمت سے محروم رہی۔ اپنی خواہش اور خاندانی دباؤ ک تحت 6 سال تک علاج معالجہ ، دم، تعویز اور کئی دروں کی خاک چھاننے کے بعد  اللہ تعالی نے اُسکی گود بھر دی لیکن جب بچے کی ولادت کا وقت آیا تو قریب آیا علاقے کے  صحت کے بنیادی مرکز میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے وہ پرائیوٹ کلینک جانے پر مجبور ہوگئے۔چار کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد لیڈی ڈاکٹر کے کلینک پہنچے جو اُص نے گھر کے اندر کھول رکھا تھا لیکن انہوں نے بھی وقت پرعلاج نہ کی۔
حلیمہ بی بی نے بتایا کہ پرائیوٹ کلینک پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحبہ سو رہی ہیں۔ آپ لوگ انتظار کریں۔ مجھے بہت زیادہ تکلیف تھی۔ تقریبا ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی ڈاکٹر کے آنے سے  پہلے بچے کی ولادت ہوئی اور جسکی آنکھیں چند گھنٹوں تک ہی کھلی رہنے کے بعد تاعمر بند ہوگئیں۔
حلیمہ نے بتایا کہ نو مولود بچے کو سانس میں دشواری تھی اور اس کو آکسیجن کی ضرورت تھی ہم اس کو چلڈرن سپیشلسٹ کے پاس لے گئے جو اپنے پرائیوٹ کلینک میں موجود تھے۔ ڈاکٹر نے بچے کی حالت دیکھ کر فورا ایمرجنسی وارڈ پہنچانے کا کہا ۔حلیمہ نے بتایا کہ ڈاکٹر کے اصرار پر ہم نے بچے کو چلڈرن وارڈ منتقل کیا لیکن ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اب وہ موت کی منہ میں چلا جائے گا ۔ سٹاف کی غیر موجودگی اور آکسیجن مشین خراب ہونے کی وجہ سے حلیمہ کے بچے کی حالت بگڑتی گئی۔حلیمہ نے ان لمحؤں کو یاد کر کے کہا  وہ بہت سخت وقت تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح ڈاکٹرز کی تلاش میں گھوم پھر رہے تھے لیکن کوئی نہیں ملا جس کی وجہ سے انکا اکلوتا بچہ جابحق ہوگیا۔ سٹاف اور سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے انھوں نے جس اذیت سے وہ وقت گزرا اسکی چھبن آج بھی حلمیہ کی باتوں میں محسوس ہو رہی تھی ۔

2017 کی مردم شماری کی مطابق باجوڑ کی آبادی دس لاکھ 93 ہزار 684 نفوس پر مشتمل ہے ۔10 لاکھ سے زائد آبادی کے لیے ایک ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال (کیٹگری بی) 2 رولر ہیلتھ سنٹرز، 19 صحت کے بنیادی مراکز ، 11 کمیونٹی سنٹرز اور 8 سول ڈسپنریز موجود ہیں۔
اس کے علاوہ تین کیٹگری ڈی ہسپتال بھی باجوڑ میں تعمیر کئے جا چکے ہیں لیکن دو مکمل طور پر غیر فعال جبکہ ایک جزوی طور پر فعال ہے۔ ضلع باجوڑ میں موجود 11 کمیونٹی سنٹرز میں پانچ مکمل طور پر غیر فعال ہیں۔ضلع باجوڑ میں صحت کی ابتر صورتحال کے باوجود 140 آسامیاں خالی ہیں جس میں میڈیکل آفیسر میل کے 22 ، نرسز کے 18، میل سپیشلسٹ ڈاکٹرز 6، وومن میڈیکل آفیسرز 4، فیمل سپیشلسٹ 3، ایک گائناکالوجسٹ جبکہ باقی لوئر سٹاف پر مشتمل آسامیاں ہیں۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر باجوڑ ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ باجوڑ کے دیہاتی علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی ہے جس کا باقاعدہ سروے کرکے  نئے 14 پرائمری ہیلتھ یونٹ کیلئے پروپوزل جمع کرایا جا چکا ہے لیکن اس کی منظوری حکومت نے دینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ وہ پہلے سے موجود سیٹ اپ کو مضبوط کیا جائے اور اس میں 24 گھنٹے سروس کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے بتایا کہ نیوٹریشن فیمل سٹاف مختلف گاوں جاتی ہیں۔ وہاں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی ماؤں کو ضروری ادویات اور پاوڈر وغیرہ مہیا کرتی ہیں۔ وہ خواتین کی رہنمائی کرتی ہیں اور سنجیدہ مسائل کی صورت میں ان کو ہسپتال بھی ریفر کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک لیڈی ہیلتھ ویزیٹر ہر بی ایچ یو اورآر ایچ سی  میں موجود ہوتی ہیں وہ نہ صرف وہاں ڈیلیوری کیسز ڈیل کرتی ہیں بلکہ شام کے وقت انہیں ایمرجنسی کی صورت میں خواتین کے گھر جانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔
سٹاف کی کمی کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹرعدنان کا کہنا تھا کہ ڈی جی ہیلتھ نے تمام قبائلی اضلاع میں گریڈ ایک سے لیکر 16 تک تمام نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کی پالیسی کو مدنظر رکھ کر چلتے ہیں۔تاہم  صوبائی حکومت اور وزیر صحت قبائلی اضلاع میں صحت کی بنیادی سہولیات کے فراہمی کیلئے تمام ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
تحصیل اتمانخیل سے تعلق رکھنے والے خالد خان بطور لیبارٹری ٹیکنیشن ایک پرائیوٹ کیلنک میں کام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ باجوڑ کے سرکاری ہسپتالوں میں میل سٹاف کی کمی ہے جبکہ وویمن سٹاف نہ ہونے کے برابرہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں لوگ خواتین مریض کو پہلے ہسپتال اس لئے نہیں لاتے کہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ وہاں وویمن سٹاف نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ گاوں میں کچھ خواتین نے میٹرنٹی ہوم کھل رکھے ہیں۔ اگرچہ وہ ماہر نہیں ہوتیں لیکن پھر بھی مجبورا لوگ وہاں علاج کیلئے جاتے ہیں۔خالد خان نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خار میں لیڈی ای سی جی ٹیکنیشن اور الٹراساونڈ ٹیکنیشن موجود نہیں ہیں۔ ڈاکٹر اگر ای سی جی یا الٹراساونڈ لکھ بھی دیتے ہیں تو مریض وہ مرد ڈاکٹروں سے نہیں کرواتے جس کیوجہ سے ان کے مرض کی صیحح تشخیص نہیں ہو پاتی  اور پریض پشاور یا تیمرگرہ جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں اگر سٹاف کی کمی کو پورا کیا جائے تو نہ صرف بہت سی ماوں اور بچوں کی زندگیاں بچ جائیں گی بلکہ لوگوں کو گھر کی دہلیز پرصحت کی سہولیات بھی مل جائیں گی۔ باجوڑ کے عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے قبائلی اضلاع میں نئی بھرتیوں پرعائد پابندیاں ختم کی جائیں اور ہسپتالوں میں سٹاف کی کمی کو پورا کیا جائے تاکہ قیمتی ذندگیاں بچائی جا سکیں۔
جب صحت کی بنیادی سہولیات اور ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے ہم نے پشاور میں میں کام کرنے والی ایک سینئر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر نورین حلیم  سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ آٹھ سال سے اس شعبے میں کام کر رہی ہیں تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ قبائلی اضلاع میں صحت کی بنیادی سہولیات جیسے کہ میٹرنٹی سروسز اور دیگر موجود نہیں۔وہ  سمجھتی ہیں کہ ان علاقوں میں سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے سینئر ڈاکٹرز وہاں نہیں جا سکتے۔

نورین حلیم نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں دائی اور ایل ایچ ویز کی ٹریننگ بھی صحیح طرح سے نہیں ہوتی جسکی وجہ سے مرض کی تشخیص سے علاج تک میں کمیاں رہ جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈیلیوری کے دوران بھی  سہولیات نہ ہونے کیوجہ سے  اکثر خواتین یا بچے اس لئے بھی مر جاتے ہیں ایل ایچ ویز یا دائی انکو صحیح طریقے سےہینڈل نہیں کر پاتے یا وہ ایک پراپر چینل کے ذریعے سینئر ڈاکٹر کو  وقت پر ریفر نہیں کرتے۔
ڈاکٹر نورین نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے لوگ آگاہ نہیں ہیں۔خواتین زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں اور اس دوران  وہ  آئرن، کیلشیم یا  ملٹی وائٹمنز  کا صحیح استعمال بھی نہیں کرتیں جس کیوجہ سے بہت خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور وجہ قبائلی اضلاع میں خواتین کو بروقت ہسپتال نہیں پہنچایا جانا بھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کام کر چکی ہیں جہاں قبائلی  اضلاع سے ایسے مریض آجاتے جنھیں دائیوں کی ناتجربہ کاری اور غلط دوائیاں خراب کر چکی ہوتی ہیں اور جب وہ ہسپتال آتے تو بمشکل آپریشن کے ذریعے ان کو بچایا جاتا ۔
ڈاکٹر نورین کے مطابق ایسے ماسائل کی دوسری وجہ ان علاقوں میں  تعلیم کی بہت کمی ہے ۔خواتین کو اپنی صحت کا شعور نہیں۔ فیملی پلیننگ کا کوئی پتہ نہیں، کہ بچوں کی پیدائش میں کتنا وقفہ ضروری ہے ۔اسلامی تعلیمات کی مطابق بھی دو سال واقفہ ہونا چاہئے لیکن وہ یہ وقفہ قائم نہیں کرتیں اسی وجہ سے پہلے والا بچہ بھی کمزور ہو جاتا ہیں اور دوسرے بچے کی پیدائش میں بھی کافی مشکلات آجاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف قبائلی اضلاع میں خواتین اور بچوں کی بہتر صحت کیلئے وہاں خواتین کی تعلیم اور شعور کا ہونا ضروری ہے  وہاں صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ڈاکٹر نورین حلیم نے بتایا کہ وہاں فیملی پلاننگ کے حوالے سے کونسلنگ اور ورکشاپ ہونی چاہئے، ڈاکٹر کو پراپر سکیورٹی اور سہولیات دینی کی ضروت ہے جبکہ پیچیدگی کے حآمل مریضوں کو بروقت بڑے ہسپتالوں میں  ریفر کرنی ضروری ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button