اے این پی کا ضم اضلاع کے دوبارہ سروے، پاک افغان تجارتی راستے کھولنے کا مطالبہ
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ضم اضلاع کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جا رہا ہے، انضمام کے وقت کئے گئے وعدے ابھی تک پورے نہیں کئے گئے، این ایف سی میں 03 فیصد حصہ نہیں دیا گیا نہ ہی سالانہ 100 ارب روپے ابھی تک فراہم کئے گئے، نئے اضلاع میں شدت پسند دوبارہ منظم ہو رہے ہیں، ان کو روکنا ہو گا ورنہ آگ اس بار لگ گئی تو بجھانا ناممکن ہو گا۔
باچاخان مرکز پشاور میں ضم اضلاع کے زمینی تنازعات کیلئے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے اراکین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ اے این پی کی خصوصی کمیٹی نے تمام اضلاع کے دورے کئے، 09رکنی کمیٹی کی سربراہی رکن صوبائی اسمبلی نثار مومند کر رہے تھے جبکہ ہر ضلع سے ایک نمائندہ کمیٹی کا حصہ تھے، ایف آر جنڈولہ میں محسود اور بیٹنی قبائل کے درمیان سرحدات کا مسئلہ ہے، کمیٹی نے فریقین سے بات کی اور امید ہے جلد یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، اسی طرح جنوبی وزیرستان میں عوام کا مطالبہ ہے کہ انگور اڈا کی راہداری کو فوری طور پر کھول دیا جائے۔
اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ شمالی وزیرستان میں جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے لیکن عوام کو اپنے جنگلات کی کٹائی کی اجازت نہیں دی جا رہی، اس کے ساتھ ساتھ جو دکانیں اور مارکیٹیں بنائی گئی ہیں، ان کا معیار ناقص ہے۔
ضلع اورکزئی بارے ایمل ولی خان نے کہا کہ وہاں بھی سرحدات کا مسئلہ ہے، کول مائنز پر غیرقانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے، درہ آدم خیل میں مائنز کا مسئلہ حل ہو چکا تھا لیکن انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے باعث دو قبیلے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں، وہاں کے عوام کے ساتھ انڈسٹریل زون کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن عوام آج بھی اس وعدے کے تکمیل کی راہ تک رہے ہیں۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ باجوڑ میں بھی عسکریت پسند دوبارہ منظم ہو رہے ہیں لیکن انتظامیہ، ریاستی ادارے اور حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، وہاں پر بھتے وصول کئے جا رہے ہیں لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں۔
ضلع خیبر بارے ایمل ولی خان نے کہا کہ وہاں کوکی خیل مہینوں سے احتجاج کر رہے ہیں لیکن انہیں آئی ڈی پیز سٹیٹس نہیں دیا جا رہا، پاک افغان تجارتی راستوں کو فوری طور پر کھولنا ہو گا کیونکہ خیبر پختونخوا کا پورا انحصار اسی تجارتی راستوں پر ہے۔
ضلع مومند بارے گفتگو کرتے ہوئے اے این پی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ خود اپنے اعلانات پر بھی عمل نہیں کرا سکے، باجوڑ اور مہمند میں مشران نے سرحدی تنازعات کے حل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اے این پی اپنا کردار ادا کرتی رہے گی، تھری جی فور جی سروس کے ساتھ ساتھ موبائل سروس کی بحالی ان کے مطالبات ہیں اور وزیرعظم و وزیراعلیٰ کے اعلانات کے باوجود یہ سروس فراہم نہیں کی جا رہی، اے این پی پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر یہ سروسز بحال کی جائیں۔
ایمل ولی خان نے اعلان کیا کہ ضم اضلاع کیلئے بنائی گئی کمیٹیوں کو ہر ضلع تک توسیع دی جائے گی اور اس طرح پورے صوبے کے مسائل مشترکہ طور پر حل کئے جائیں گے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک تباہ شدہ گھروں، دکانوں اور مارکیٹوں کا دوبارہ سروے کیا جائے کیونکہ عوام پہلے کئے گئے سروے سے مطمئن نہیں، انضمام کے وقت دس سال تک ٹیکس نہ لینے کا وعدہ پورا کرنے کے بجائے 17 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے، 28000 ملازمتیں دینے کی بجائے وہاں کے عوام کو بے روزگار کیا گیا۔
ضلع مہمند سمیت دیگر اضلاع میں ماربل کان کے حادثات پر گفتگو کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ حکومت ان واقعات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ مشینری مہیا کرے تاکہ قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ تمام تعلیمی اداروں میں ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات کیلئے کوٹہ بحال کیا جائے کیونکہ انضمام کے وقت ان کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا۔