”اس وباء نے گھروں تک محدود کر دیا تھا اور وہ بھی بغیر کسی آمدنی کے”
پشاور کی محلہ حسینیہ کی 60 سالہ سکھا مختلف گھروں میں نوکرانی کی حیثیت سے کام کرتی ہیں، ان کی دنیا اس وقت تاریکی میں ڈوب گئی جب کورونا وائرس نے پاکستان میں پنجے گاڑ دیئے۔ وہ خود کماتی ہیں اور کبھی کبھار ان کا چھوٹا بیٹا ان کی مدد کرتا ہے جو خاندانی آمدنی میں حصہ ڈالتا ہے۔
کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں نے گھریلو ملازمین پر گھروں کے دروازے بند کر دیئے جس کی وجہ سے سکھا اور ان کے بیٹے کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہو گئیں۔
سکھا کے مطابق اس وباء نے ان کو گھروں تک محدود کر دیا تھا اور وہ بھی بغیر کسی آمدنی کے۔ ‘ہم کام کے لئے بایر نہیں جاسکتے تھے تو ہم خود کو کیسے کھلا سکتے تھے؟ بھوک اور افلاس نے ہمیں کچل دیا ہوتا۔
کووڈ 19 کی وبائی بیماری خطرناک حد سے زیادہ پھیل چکی ہے جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور کاروبار بند ہو گئے۔ پاکستان کی 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے آنے کے باعث، کورونا وائرس نےغریبوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس نے کمزور لوگوں کی اصل پریشانیوں کو بڑھا دیا ہے کیونکہ اپنی ضروریات زندگی پوری نہیں کرسکتے۔
مارچ کے وسط میں حکومت کو ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کرنا پڑا، نقل و حرکت پر پابندی اور کاروبار بند ہونے کے نتیجے میں لوگوں کی ملازمت ختم ہوگئی۔ روزانہ کی بنیاد پرمزدوری کرنے والوں دیہاڑی دار اس میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ ان کی معمولی آمدنی نے انہیں پہلے پیسے بچانے کی اجازت نہیں دی تھی اور انکے پاس کوئی جمع پونجی نہیں تھی وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو کھانا بھی نہیں کھلا سکتے تھے۔
ان حالات کے دوران حکومت نے کم آمدنی والے خاندانوں کو فوری نقد رقم کی مد میں (12000 روپیہ ایک وقتی امداد) فراہم کرنا شروع کی تاکہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنی بنیادی ضروریات کا انتظام کرسکیں۔ مالی اعانت کا ملک بھر میں احسان کیش ایمرجنسی پروگرام میں ترجمہ کیا گیا۔
اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کے لیے ایک مختصر کوڈ سروس 8171 بھی متعارف کروایا گیا۔
اس کے علاوہ پاکستان بیورو آف شماریات کے ذریعہ کئے گئے ایک قومی سروے کے ذریعے مستحق خاندانوں کی تصدیق کی گئی، صوبائی حکومتیں ضلعی اور مقامی حکومتوں کے توسط سے نچلی سطح تک پہنچ گئیں اور وزیر اعظم کے پورٹل پربھی درخواستیں بھی مانگی گئیں۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بندوبستی علاقوں اور نئے ضم شدہ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل ہو۔
صوبائی حکومت یو این ڈی پی کے ضم شدہ علاقوں کی گورننس پروجیکٹ کے تعاون سے ، روزانہ کی فراہمی کے عمل پر کڑی نظر رکھی، احسان کیش پروگرام کی نوعیت کے پیش نظرانسانی غلطیاں امکان تھا لہذا صوبائی حکومت ایک واچ ڈاگ کا کردار ادا کر رہی ہے اور وہ وفاقی حکومت اور کے پی کے باسیوں کے مابین فاصلے کو دور کررہی ہے۔
کیش تقسیم کرنے والے مقامات پر چیک، رقم چوری کو ٹریک اور مراکز میں عوام کو درپیش مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے یہ پروگرام کی استعداد میں اضافے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وباء کے سماجی و معاشی اثرات کو کم کرنے کے لئے حکومت نے 29 بلین روپے رکھے ہیں۔
مسائل و مشکلات کے باوجود حکومت مالی سال کے اقدامات کو شفافیت کے ساتھ یقینی بنا رہی ہے۔ نادرا کی جانب سے وصول کنندہ کی تصدیق کے بعد رقم کی تقسیم کرتے ہوئے خردبرد اور ابہام کی روک تھام کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی حکومت نے کھلے مقامات پر رقوم کی تقسیم کے انتظامات کئے تھے اور ایس او پیز کے تحت ان رقوم کی تقسیم کو یقینی بنایا گیا تھا۔
اس حوالے سے وزیراعظم کی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ چار ماہ کے دوران ہم نے احساس پروگرام کو بخوبی مکمل کیا ہے اور ملک کے 12 ملین گھرانوں میں 145 ارب روپے تقسیم کئے ہیں۔
پروگرام کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اب حکومت نے 17 ملین گھرانوں کا ہدف مقرر کیا ہے جس کے لئے 203 بلین روپے رکھیں جائیں گے۔ کووید نائٹین کی سورت میں سامنے آنے والی غربت آٹے میں نمک کے برابر ہے درحقیقت غربت اور بھوک کی جڑیں اس ملک میں نہایت گہری ہیں، احساس پروگرام کا مقصد وقتی ریلیف کی فراہمی نہیں بلکہ طویل المدتیتناظر میں ایک پائیدار اور لچکدار معیشت تشکیل دینا ہے۔
سکھا کی طرح کے لوگوں کے لئے ان کٹھن حالات میں یہ مالی امداد باعث اطمینان ہے اور اس سے حکومت کی غریب عوام بارے فکر کی غمازی ہوتی ہے۔ گورنمنٹ شہید حسنین شریف ہائیر سیکنڈری سکول سٹی نمبر ایک کے سامنے قطار میں کھڑی سکھا نے شکریہ اور حکومت کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ "میں محروم اور غریب پس منظر سے تعلق رکھتی ہوں، مجھے پیسوں بارے ایک مسیج موصول ہوا، یہاں میرے ساتھ تعاون کیا گیا اور کافی عزت دی گئی، اس سپورٹ پر میں حکومت کی مشکور ہوں۔”