سوشل میڈیا کی مہربانی سے آج کہانیاں ہیں نہ مطالعے کی عادت
رانی عندلیب
انسان کے ارتقائی عمل میں کہانی سننا اور کہانی سنانا یا بہ الفاظ دیگر قصہ گوئی کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے۔ قدیم زمانے میں کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ یہ کہانیاں قدیم تہذیب کے بارے میں یا لوگوں کو سبق سکھانے کے لیے یا کسی بادشاہ یا راجہ کی کہانیاں ہوتی تھیں، لوگ ایک دائرے میں بیٹھ کر یہ کہانیاں سنتے تھے۔
رفتہ رفتہ یہ آرٹ ہاتھ میں کتاب اور اس کو ورق بہ ورق پڑھنے کی صورت اختیار کر گیا، قدیم مصری باشندے نے اس کی شروعات کیں کہ انھوں نے کتاب کو صفحہ بہ صفحہ بنانا شروع کر دیا۔ کتابوں میں کہانیاں اس لیے ہوتی تھیں کہ ان میں اس زمانے کے حالات، تاریخ یا کسی قدرتی آفت کے بارے میں آنے والی نسلوں کو آگاہ کیا جاتا تھا۔
دراصل کتاب ایک پیشن گوئی کا ذریعہ ہوتی تھی۔ علم، تجسس، چیزوں کو جاننا یہ انسانی جبلت کا حصہ ہے۔ کتاب پڑھنا یا کتاب کو ہاتھ میں لے کر گھومنا یہ کسی زمانے میں امراء کی نشانی ہوتی تھی یا کسی عالم کی، یہ اس زمانے کی بات ہے جب کسی کے ہاتھ میں کتاب ہوتی تھی تو بہت فخر کی بات ہوتی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح معاشرے کی اور چیزوں میں تبدیلیاں آ گئی ہیں اسی طرح پڑھنے میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ نوجوان طبقے میں مطالعہ کا رجحان کم ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں لاعلمی اور ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں جو کہ نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔
کتابوں کا مطالعہ ہمیشہ سے انسان کی ضرورت رہا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ ایک باشعور انسان کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے، کتاب کو تنہائی کا بہترین ساتھی کہا جاتا ہے، کتابوں کا مطالعہ انسان کی ذہنی نشوونما میں اہم اور مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی عظیم اور کامیاب لوگ گزرے ہیں یا ابھی کامیابی کے زینے چڑھ رہے ہیں، وہ مطالعہ کتب کی بدولت ہے۔
نشا کا کہنا ہے جس طرح وقت کی رفتار تیز ہو گئی ہے اور زندگی جدید ہوتی جا رہی ہے اور ذہن بھی ماڈرن ہو گئے ہیں، اس جدید دور میں لوگ مصروف ہو گئے ہیں چاہے وہ جاب ہے، سکول میں بچے ہیں، کوئی بھی فارغ نہیں ہے اور اگر کوئی فارغ ہو بھی جائے تو پھر ٹی وی ہے، نیٹ ہے، موبائل ہے، سوشل میڈیا ہے، گیمز ہیں ریڈیو ہے تو کتب کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا، درسی کتب کو بھی ایک بوجھ اور زبردستی پڑھا جاتا ہے۔
نشا کے مطابق پرانے زمانے میں یہ تمام چیزیں نہیں تھیں، لوگوں کا رجحان بھی اتنا نہیں تھا تو لوگ مشغلے کے طور پر کتاب کا مطالعہ کرتے تھے، دینی اور درسی کتب کے علاوہ گھر میں انفارمشن کی کتب ہوتی تھیں اور کہانیوں کی کتابیں، لوگ فارغ اوقات میں پڑھتے تھے لیکن آج کل لوگ اور سرگرمیوں میں مصروف ہونے کی بنا پر مطالعہ سے بہت دور ہیں۔
دیر کے ڈاکٹر امیر تراب کا کہنا ہے کہ مشرق میں سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان نسل میں مطالعہ کی عادت میں شدید کمی آئی ہے، سوشل میڈیا سے متاثر یہ نوجوان مطالعہ اور محنت کی بجائے شارٹ کٹ اختیار کر کے کامیابی کے خواہشمند ہیں، کرکٹ کی مثال بھی افیون کی سی ہے جس نے نوجوانوں کے مطالعے کی عادت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، الیکٹرانک میڈیا پر متنوع چینلز نے بھی مطالعہ کی عادت کو متاثر کیا ہے، اگرچہ مغرب میں بھی سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز موجود ہیں لیکن شعور و آگہی کی وجہ سے وہاں اب بھی کتب نگاری اور مطالعے کی عادت موجود ہے۔
عبدالستار کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ و ترسیل کی بہتات ہے اور سہولیات کی بھی کمی ہے جیسے اچھی لائیرئری وغیرہ ایسے ہی طرح طرح کے اخبارات و رسائل اور کتابوں کی بھی فراوانی ہے جو انسان کو اچھی کتاب کے مطالعہ سے روکے ہوئی ہے، بچوں کی رہنمائی بھی نہیں ہو رہی، والدین کے ہاتھوں میں موبائل اور ہمسایوں اور رشتے داروں کی دنیا داری کو دیکھتے ہوئے ایک بچہ کیوں کر کتاب پڑھنے بیٹھے گا؟