ویڈیو جرنلسٹ رکشہ چلانے پر مجبور
رفیع اللہ خان
چند ماہ قبل ہمارے پیارے اور سینئر ساتھی نیوز ون کراچی کے نمائندے ایس ایم عرفان کو تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ہارٹ آٹیک ہوا اور وہ دنیا فانی سے رخصت ہوئے، ابھی ان کا غم بھولے نہیں تھے کہ دیگر ٹی وی چینلز کے ورکرز بھی تنخواہیں نہ ملنے یا علاج کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وفات پانے لگے۔
گزشتہ دنوں ویڈیو جرنلسٹ صفیر کی ویڈیو سامنے آئی جو نوکری سے فارغ کرائے جانے کے بعد رکشہ چلانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ویڈیو میں صفیر احمد جس بے بسی اور مجبوری کے عالم میں یہ الفاظ ادا کر رہے ہیں ” کھانے کو نہیں ہے، بچے بھوکے ہیں” اس نے دل ایسا زخمی کیا ہے جیسے کسی نے خنجر کے وار کئے ہوں۔
ابھی دل شدید زخمی تھا کہ آج ایک اور ویڈیو سامنے آ گئی جس میں ایک اور میڈیا ورکر سید عمران جعفری اپنی لاچاری، بے بسی اور مجبوری کا رونا رو رہے ہیں۔ اس ویڈیو نے تو دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یعنی مجھے اپنی اور ماس میڈیا کے ان طلبہ و طالبات کا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا ہے جو صحافت میں کچھ کر گزرنے اور نام پیدا کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے صحافت کا آغاز کیا تو سوات میں طالبائنزیشن عروج پر تھی، اس وقت طالبان کی دھمکیوں اور فوج کے دباؤ کا سامنا کیا۔ فیلڈ میں ہر مشکل اور سختی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ خودکش دھماکے ہوتے تھے، عام لوگ وہاں سے راہ فرار اختیار کرتے اور ہم اپنی جان کی پروا کئے بغیر وہاں گھس جاتے تھے، اس دوران گھر سے فون آتا بیٹا دھماکہ ہوا ہے تم کدھر ہو میں بولتا اسی جگہ موجود ہوں جہاں دھماکہ ہوا ہے جواب ملتا یہ تم کن چکروں میں پڑ گئے ہو، سیدھے گھر آجاؤ میں ہاں کہتا اور اس کے باوجود اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا۔
جائے وقوعہ پر بکھری لاشیں دیکھتا، کسی کے پاؤں تو کسی کے ہاتھ ادھر ادھر بکھرے پڑے ہوتے، جب ہسپتال جاتے تو درجنوں مسخ شدہ لاشوں پر نظر پڑتی۔ ہم اتنے سخت دل اور سنگدل بن گئے تھے کہ میں بتا نہیں سکتا۔
ایک دن ملا فضل اللہ نے جمعے کی نماز کے بعد میڈیا ٹاک کرنا تھی، میں ساتھیوں سمیت وہاں موجود تھا، نماز جمعہ کے بعد ہمیں ایک کمانڈر نے مدرسے کے لان میں بٹھایا اور کھانا لگایا، ایسے میں گن شپ ہیلی کاپٹر نمودار ہوا تو مولانا سیراج الدین جو اس وقت طالبان ترجمان تھا، نے آ کر کہا کہ سب اندر مدرسے میں جاؤ گن شپ ہیلی کاپٹر آیا ہے اور شیلنگ کا خطرہ ہے، ہم سب میڈیا کے ساتھی مدرسے میں اندر گئے، کوئی ایک ستون سے چمٹ گیا کوئی دوسرے کے ساتھ، اس وقت میری جو کیفیت تھی وہ میں بیان نہیں کر سکتا، بس کلمہ پڑھتا رہا اور یہ سوچ حاوی تھی کہ ابھی تو میں نے صحافت میں کچھ کیا بھی نہیں اور ایسے مفت میں مارا جاؤں گا۔
بس وہ چار پانچ منٹ کا دورانیہ اتنا مشکل تھا کہ موت کو کافی نزدیک سے دیکھا تھا۔ جب ہیلی کاپٹر شیلنگ کئے بغیر چلا گیا تو مولانا سیراج الدین نے آواز دی کہ سب باہر نکلو اور میرے پیچھے آؤ، وہ ہمیں ان گھروں تک لے کر گئے جو ایک دن قبل شیلنگ سے تباہ ہوئے تھے، ہم نے ان گھروں کی فوٹیج بنائی اور سیدھا وہاں سے نکل گئے۔
مولانا کی میڈیا ٹاک بھی نہ ہو سکی۔ یہی نہیں بلکہ ایک دن ہم مالم جبہ میں ایونٹ کور کرنے کی غرض سے آرمی سرکٹ ہاؤس میں جمع تھے، ہم نے آٹھ بجے وہاں سے نکلنا تھا لیکن گاڑیوں کے انتظار میں آدھا گھنٹہ لیٹ ہو گئے تھے اور صحافی بھائی محو گفتگو تھے کہ ایسے میں زوردار دھماکہ ہو گیا، جس جگہ ہم بیھٹے تھے وہاں کے شیشے ٹوٹ گئے اور افراتفری کے عالم میں ہم سب وہاں سے باہر نکل گئے۔
خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا تھا جس میں کافی جانیں ضائع ہو گئی تھیں اور متعدد افراد زخمی بھی ہوئے تھے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ خودکش حملہ آور صحافیوں کی گاڑیوں پر حملہ کرنے کے لئے آیا تھا لیکن ہم ٹائم پر نہیں نکل سکے لیٹ ہو گئے تھے اور اس کا مزید وہاں ٹھہرنا مشکل تھا تو اس نے گیٹ کے سامنے اپنے آپ کو اڑا دیا۔
غرض یہ کہ ہم نے متعدد بار موت کو گلے سے لگایا ہے لیکن شاید وہ دن ہمارے مقرر نہیں تھے۔ دوسرے غرض یہ کہ صحافی کھبی کسی حالات سے نہیں ڈرتا، ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرتا ہے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی ڈیوٹی بطریق احسن ادا تو کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی جاب سکیورٹی ہوتی ہے اور نہ ہی جان و مال کے تحفظ کی، آخر میں بس یہی ہوتا ہے جو اوپر بیان کر چکا ہوں۔ یعنی اتنی قربانیوں کے باوجود صحافی ذلت اور رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
میڈیا ورکر کی زندگی کب بدلے گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ ان اداروں سے جو صحافیوں کے حقوق کی باتیں کرتے ہیں۔
سوات میں صحافیوں کے دو گروپس ہیں۔ ایک گروپ جو مقامی اخبارات کے مالکان کا ہے جو سوات پریس کلب کی عمارت پر قابض ہے، دوسرا ہمارا گروپ ہے جس کا میں صدر ہوں۔ کارکن صحافیوں کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے، کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کر چکا ہوں، ایک ملاقات کی روداد آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
پشاور میں سیکرٹری انفارمیشن قیصر عالم صاحب سے ملاقات کی جس میں میں نے سیکرٹری صاحب کو کہا کہ سوات میں کارکن صحافیوں پر پریس کلب کے دروازے بند ہیں، یہ تو ایک عام سی بات ہے لیکن سوات پریس کلب کے آئین کے مطابق جرنلزم کے طلبہ و طالبات کو دس فیصد کوٹہ دیا گیا ہے اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
میں نے سیکرٹری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ایسے ہی ہے جیسے کہ میڈیکل سٹوڈنٹس پر سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے دروازے بند کئے جائیں تو وہ عملی کام کہاں سے سیکھیں گے؟ تو انہوں نے ڈی جی انفارمیشن امداد اللہ صاحب کو دیکھتے ہوئے سر ہلایا کہ یہ کیا بول رہا ہے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے بھی بچے ہوں گے، ان کی خاطر قوم کے ان بچوں کا بھی اپنے بچوں جیسا خیال رکھیں اللہ کے لئے۔
انہوں نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن دو سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس لئے مجھے آنے والے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹیڈیز کے سٹوڈنٹس کا مستقبل بھی کوئی اچھا نظر نہیں آرہا۔
میں ایک بات اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جس جذبے اور لگن سے میں نے یہ فیلڈ چنا تھا اور جس ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی نبھائی ہے وہ اللہ پاک کے سامنے ہے لیکن آج صحافیوں کے یہ حالات دیکھ کر مایوسی ہوئی ہے اور دل ٹوٹا ہے۔ کیونکہ اس فیلڈ میں جتنی حسد اور بغض سے بھرے لوگ جمع ہیں میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قلم کے خاوند بھی ایسے ہو سکتے ہیں۔ معاشرے کی آنکھیں اتنی گندی ہو سکتی ہیں؟
باہر سے پرکشش اور مقدس نظر آنے والا یہ شعبہ اندر سے اتنا ہی بوسیدہ ہے۔ بس اللہ پاک سے یہی دعا ہے کہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے۔ آمین ثمہ آمین۔