صوبائی وزیر ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان لکی مروت کا نام کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
عثمان خان
لکی مروت سے تعلق رکھنے ممبر صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر براۓ سوشل ویلفیئر ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے ضلع لکی مروت اور تحصیل لکی مروت کا نام تبدیل کرنے کیلئے خیبر پختونخوا کے وزیراعلی کو باقاعدہ طور پر درخواست دی ہے، لیکن درخواست دینے کے بعد اس معاملے پر گرم بحث شروع ہو گئی ہے اور لکی مروت کے عوام کی جانب سے اس پر کافی سخت ردعمل سامنے آٰیا ہے۔
وزیراعلی کو دی گئی صوبائی وزیر نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ضلع ہذا کے لوگ دین اسلام اور آخری پیغمبرﷺ سے محبت کرنے والے لوگ ہیں لہٰذا لکی مروت ضلع اور تحصیل لکی مروت کا نام تبدیل کر کے محمدیہ مروت رکھا جائے، کیونکہ یہ ضلع کے عوام کا دیرینہ مطالبہ اور خواہش ہے۔
ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے اپنی درخواست میں وہ تمام وجوہات بیان کی ہیں جن کی بنا پر وہ ضلع کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ذیل میں ان وجوہات میں سے بنیادہ وجہ کو بیان کرنے سے قبل یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ وزیر موصوف نے اپنی درخواست کے ساتھ ان اٹھارہ اضلاع کے ناموں پر مبنی ایک فہرست دی ہے جن کے نام اس سے قبل تبدیل کئے گئے ہیں۔
درخواست میں نام کی تبدیلی بنیادی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ لکی مروت نام میں ”لکی” زمانہ غلامی کی شرمناک یاد دلاتی ہے، جس کی محتصر تاریخ یہ ہے کہ لکی مروت کا پہلا نام ”تھل دامان” تھا جس کے معنی ریتلا علاقہ ہے۔ بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دور حکومت میں ‘تھل دامان’ کا علاقہ ہندو دیوان ‘لکی مل’ کو مبلغ چالیس ہزار روپے کے عوص لیز کے طور پر فروخت کیا اور یوں ضلع کا نام لکی مروت پڑ گیا۔
صوبائی وزیر ہشام انعام اللہ خان کے اس اقدام پر لکی مروت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کافی تنقید شروع کی ہے کہ وزیر صاحب کی یہ خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہو گی کیونکہ لکی مروت کا نام ان کا تشخص اور ایک تاریخی شناخت ہے جس کو تبدیل کرنے کیلئے وہ کبھی بھی تیار نہیں ہوں گے۔
فرید اللہ مینا خیل نامی ایک صارف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر لکھا ہے کے منسٹر صاحب نے شاھی فرمان کے ذریعے اپنا فیصلہ سنایا، اور عوامی رائے جاننے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
مسلم لیگ ‘ن” کے ضلعی ورکرز کی جانب سے بھی صوبائی وزیر پر کڑی تنقید ہوئی ہے جنہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ضلع لکی مروت کو ضلع کا درجہ 1992 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے دیا تھا اور کوئی مائی کا لال لکی مروت کا نام تبدیل نہیں کر سکتا، یہ چیلنج ہے۔
ثمر گل مروت نامی صارف نے سابق تحصیل ناظم فرید اللہ خان میناخیل کی جانب سے لکھا ہے کہ لکی مروت نام سے تاریخ وابستہ ہے، نام تبدیلی ہرگز قبول نہیں ورنہ سخت احتجاج کریں گے۔
ایک اور سوشل میڈیا صارف انور صدیق ملک نے اپنے پروفائل پر لکھا ہے کہ اگر اتنا ہی اسلامی ناموں سے پیار ہے تو اپنے گاؤں غزنی خیل کا نام تبدیل کر کے محمدیہ خیل رکھ دو، ناموں پے دھوکہ دینے والی ریاست مدینہ کے بعد اب ضلع محمدیہ۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت میں جمعت علماء اسلام کے ضلعی جنرل سیکرٹری سمیع اللہ مجاہد نے بتایا کہ ایک صوبائی حلقے کے نمائندے کو یہ حق کس نے دیا ہے کے وہ پورے ضلع کا نام تبدیل کرے، صوبائی وزیر نے یہ ڈرامہ رچایا ہے جس کو لکی مروت کے عوام نے مسترد کر دیا ہے اور یہ کہ ہشام انعام اللہ خان مذہب کے نام پر لوگوں کی ہمدردی حاصل کر کے سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن لکی کے فرزندان اسلام ان سے بھی خوب جانتے ہیں، لہٰذا وزیر صاحب ان کاموں کے بجائے ضلعی کی پسماندگی دور کرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں اور کوئی ترقیاتی کام علاقے میں کریں۔
جمعیت علماء اسلام کے ضلعی جنرل سیکرٹری نے یہ بھی بتایا کہ صوبائی وزیر نے اپنے انتخابی خلقے پی کے 92 میں نئی بننے والی تحصیل غزنی خیل کا نام تحصیل محمدیہ مروت رکھ دیں۔
لکی مروت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی لیاقت صیام نے بتایا کہ صوبائی وزیر ڈاکٹر ہشام انعام اللہ کی اس درخواست پر علاقے کے عوام نے کافی تشویش ظاہر کی ہے اور ان کے مطابق ضلع کے 90 فیصد عوام نے اس تجویز کو مسترد کیا ہے۔
لیاقت صیام کے مطابق لوگوں کا کہنا ہے کہ ضلع کا نام تبدیل کرنے کا شوشہ صوبائی وزیر کی ذاتی خواہش ہے جو کبھی بھی پوری نہیں ہو گی، ان کے مطابق بعض سیاسی پارٹیوں نے اس ضمن میں احتجاج کرنے کے بھی اشارے دیئے ہیں،
اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ ضلع کے نام کی تبدیلی پر ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے۔