‘کورونا کا شکار ہوا تو سب سے زیادہ فکر اپنی ماں کی تھی’
بشریٰ محسود
‘کورونا کا شکار ہونے کے بعد مجھے سب سے زیادہ فکر اپنی ماں کی تھی کیونکہ میری والدہ کی عمر زیادہ ہے اس لئے مجھے خود سے زیادہ ان کی فکر تھی اور یہ بات مجھے ذہنی طور پر پریشان کر رہی تھی۔’ یہ کہنا ہے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے حضرت علی کا جو حال ہی میں کرونا وائرس سے صحتیاب ہوئے ہیں۔
حضرت علی کا کہنا ہے کہ میں بطور سپروائزر کام کرتا ہوں، میں دوستوں کے ساتھ فیلڈ میں تھا، ڈیوٹی کے بعد قریب ہی ایک مقامی ہوٹل میں سبزی منگوا کر کھانا کھایا، پھر گھر میں کھٹی لسی پی لی، رات کو گلے کا انفیکشن ہو گیا لیکن یہ اکثر مجھے کھٹی چیزیں کھانے سے ہو جاتا ہے اس لیے میں نے زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن اگلی صبح مجھے ٹمپریچر ہوا جو کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔
‘پھر میں دو دن تک پیناڈول اگمنٹین میتھرجین دوائیاں استعمال کیں لیکن کچھ فرق نہیں پڑ رہا تھا تب میں نے ڈاکٹروں کے مشورے سے کرونا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور میرا ٹیسٹ پازیٹو آ گیا۔’ حضرت علی نے بتایا۔
حضرت علی نے بتایا کہ انہوں نے گھر پر ہی خود کو آئسولیٹ کیا، وہ بہت زیادہ احتیاط کر رہے تھے لیکن ان کے گھر والے ان باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے خاص طور پر ان کی والدہ سماجی دوریوں کی ان باتوں پر کہتی تھیں کہ انہیں ان باتوں پر ہنسی آتی ہے، وہ اس کو مذاق سمجھتی ہیں، ‘وہ مجھ سے خود کو دور نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن میں نے خود کو ان سے دور رکھنے کی پوری کوشش کی کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے میری ماں میرے بچے یا باقی گھر والے اس سے متاثر ہوں۔’
انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ کی عمر زیادہ ہے اس لئے انہیں خود سے بھی زیادہ ان کی فکر تھی کیونکہ کرونا وائرس ان کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا تھا، یہی بات ان کو ذہنی طور پر پریشان کر رہی تھی۔ ان کو دن بھر بہت زیادہ فون کالز آتے تھے اور لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ سب کیسے ہوا ؟کیوں ہوا ؟کیا مسئلہ تھا جو آپ کو کہ یہ سب ہوا ؟
ان کے رویے اور باتوں سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں اور وہ اس کو اب بہت خوفناک وباء سمجھتے ہیں۔
حضرت علی نے کہا کہ کرونا سے پہلے ان کے گھر تبلیغی جماعت آتی تھی اور رش لگا رہتا تھا لیکن اب وہ نہیں آتے ہیں۔ ‘میں جب مسجد جاتا ہوں تو وہاں بھی لوگ مجھ سے زیادہ احتیاط نہیں کرتے مگر اب جب مزید دو تین لوگوں کا ٹیسٹ مثبت آیا تو لوگ ڈرنے لگے ہیں اور بہت احتیاط شروع کر دی ہے، یہاں کے لوگوں میں اس وباء کے متعلق کوئی شعور نہیں ہے اس وجہ سے لوگ اس کو مذاق سمجھتے ہیں۔’
‘مجھے اپنے گھر والوں کی بہت زیادہ فکر رہتی ہے، اپنے گھر والوں کی لاپرواہی کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہوں۔’
موجودہ حالات میں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے جس کا تناسب خواتین کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہے، ایک طرف سارے کاروبار بند ہیں تو دوسری طرف گھر کی ساری ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر ہیں۔
اس حوالے سے ماہر نفسیات ڈاکٹر جلوہ سعید، جو پشاور میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے کوئی ایک گھر متاثر نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے، اگر کسی ایک انسان کو کرونا ہو جاتا ہے تو اس کے گھر میں بہت زیادہ خوف ہوتا ہے، پورے علاقے میں انزائٹی پھیل جاتی ہے، لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب ایک شخص سمجھنے لگتا ہے کہ وہ بیمار ہے اور اس کو کرونا ہو گیا ہے جس سے لوگ مر رہے ہیں میں بھی مرنے والا ہوں یا وہ سوچنے لگتا ہے کہ میں اب صحت یاب نہیں ہو سکتا، اس کو یہ بھی خوف ہوتا ہے کیا اب میری وجہ سے میری فیملی میرے بچے وغیرہ اس کا شکار ہو جائیں گے اور ہم سب مر جائیں گے جس کی وجہ سے اس کے ذہن پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر جلوا سعید نے کہا کہ اکثر کرونا وائرس کا شکار ہونے والے مریض سمجھتے ہیں کہ میں نے ماضی میں کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہے اس لیے اللہ تعالی نے اب مجھے سزا دی ہے کہ میں اس بیماری میں مبتلا ہوا ہوں اور میں اکیلا رہوں گا اور جب مروں گا تو میرا جنازہ بھی نہیں ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ لوگ اب اس سے نفرت کرنے لگے ہیں، اس سے دور بھاگتے ہیں، اکثر لوگ اس وجہ سے بہت ہی زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں لہذا ان کو بتایا جائے کہ ڈاکٹرز کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے، اگر سماجی دوری کا کہا جائے تو آج کل تو بہت آسانی ہے، موبائل اور ویڈیو کالز کے ذریعے ایک دوسرے سے بات بھی کر لیتے ہیں اور ان سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے ،تو ایک کمرے میں خود کو آئسولیٹ کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔
جلوا سعید نے کہا کہ مثبت سوچیں، ذہنی طور پر خود کو مضبوط رکھیں تو پریشانی اور دیگر ذہنی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، کرونا وائرس کے شکار مریضوں کو حوصلہ دیں کہ صرف آپ ہی اس بیماری کا شکار نہیں ہوئے ہیں پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے، بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گے آپ۔
انہوں نے کہا کہ موبائل کے ذریعے اپنے رابطے بحال رکھیں اگر آپ اپنا پورا علاج کریں گے تو اس سے آپ کو بھی فائدہ ہو گا اور آپ کے گھر والوں کو بھی ورنہ آپ ٹھیک ہو جاؤ گے لیکن دوسروں کو کرونا لگ جائے گا اگر آپ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرو گے تو۔ اس طرح اگر ان مریضوں کا موٹیویشنل لیول بڑھائیں گے تو ان کا مینٹل سٹریس کم ہو گا اور ان میں اس سے لڑنے کی طاقت پیدا ہو گی ان سے ہمدردی کا اظہار کریں۔
غربت پاکستان میں پہلے سے تھی لیکن کرونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دکانیں بند ہیں، کاروبار متاثر ہے تو اس وجہ سے ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہے، اگر ہم دیکھیں تو پوری دنیا اس سے متاثر ہے، بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی اس میں ناکام ہو چکے ہیں۔
اکرام اللہ ایک دیہاڑی دار مزدور ہے، لاک ڈاون کی وجہ سے بے روزگار ہونے کے بعد اب وہ ذہنی مریض بن چکا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کے چھ بچے ہیں، اس وباء سے پہلے وہ دیہاڑی پر پاوڈر کے کارخانے میں کام کرتے تھے، اب وہ کارخانہ بند پڑا ہے، ان کے گھر کے حالات بہت خراب چل رہے ہیں۔
اکرام اللہ کے مطابق عید گزر گئی اور بچوں کے کپڑے جوتے وغیرہ نہیں تھے اور اب پھر سے بڑی عید آ رہی ہے اور ان کا کوئی روزگار نہیں ہے۔ ‘میں خود ان پڑھ ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ بچوں کو تعلیم دلاؤں، اب سب درہم برہم ہو چکا ہے اب میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔’
اکرام اللہ نے کہا، ‘مجھے روزانہ پانچ، چھ سو روپے اجرت ملتی تھی، اس میں سے بچت کرنا میرے لئے ناممکن تھا، جب میں شام کو گھر واپس آتا تو اس سے گھر کیلئے راشن، چینی وغیرہ خریدتا۔
انہوں نے کہا کہ میری 35 سال عمر ہے، ان حالات کی وجہ سے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں، میرے ذہن پر بہت برے اثرات پڑے ہیں۔ ‘ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت پریشانی ہے، ایک دوکاندار سے اٹھارہ ہزار کے کپڑے قرض پر خریدے کہ اس سے کاروبار شروع کروں لیکن کوئی خریدتا نہیں ہے اب وہ دوکاندار روز روز مجھے فون کرتا ہے کہ پیسے دے دو لیکن میرے پاس پیسے ہی نہیں ہیں تو میں اسے کیسے دوں؟’
انہوں نے کہا کہ رمضان میں کوئی کام کاج نہیں ملا اور اب بھی کوئی روزگار نہیں مل رہا کوئی مزدوری نہیں ملتی فی الحال اخوت (فلاحی ادارہ) والوں سے قرض لوں گا اور وہ پیسے جو قرض دار ہیں ان کو دے دوں گا اور پھر بعد میں کسی اور سے پیسے لے کراخوت والوں کو دے دوں گا اب مجبوری ہے زندگی اسی طرح چل رہی ہے۔
اکرام اللہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں تو ان کی اتنی بھاری فیس ہے اور اوپر سے دوائیاں اور الٹراساؤنڈ وغیرہ کا خرچہ الگ ہے، ‘میرے پاس زندگی گزارنے کے سارے آپشنز ختم ہو چکے ہیں، پہلے تھوڑا بہت گزارا ہوتا تھا لیکن اب تو مکمل روزگار بند ہے اور اس وجہ سے میں بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں۔’
پاکستان میں ذہنی بیماریوں کے شکار مریضوں کے متعلق زیادہ تر لوگ بات کرنا پسند نہیں کرتے، یہاں ذہنی بیماری کو ایک معاشرتی ٹیبو (بدنامی) سمجھا جاتا ہے، اس حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ذہنی دباؤ سمیت دیگر ذہنی بیماریوں کے متعلق کھل کر بات کرنا شروع کریں۔
حکومت اور محکمہ صحت کیلئے ضروری ہے کہ وہ کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کی مینٹل ہیلتھ پر بھی توجہ دیں، ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ نہ صرف جسمانی طور پر صحت مند ہوں بلکہ ذہنی طور پر بھی توانا ہوں۔