پشاور کی سکھ برادری کے لئے شمشان گھاٹ کا قیام خواب بن گیا
گذشتہ کئی دہائیوں سے پشاور کی سکھ کمیونٹی کے لوگوں کی اپنی مذھبی رسومات ادا کرنے کے لئے ان کے پاس نہ تو کوئی گردوارہ موجود ھے اور نہ ھی چوتھی کے رسومات کے لئے شمشان گھاٹ۔
1988 میں ڈسٹرکٹ مینارٹی ممبر کی حیثیت سے میں نے انسانی حقوق پر بات کی اور اپنے حقوق کے لئے بھی آواز بلند کی جس پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر خان ذادہ خان صاحب نے عرضی منظور کرتے ھوئے اٹک کے مقام پر شمشان گھاٹ کی منظوری دی اور اسکا تمام خرچہ حکومت پاکستان نے برداشت کیا۔
پھر 2010 کے سیلاب کی تباہ کاری کے بعد شمشان گھاٹ کی بحالی کے لئے بھی اخراجات پشاور کی لوکل گورنمنٹ اور صوبائی حکومت نے برداشت کئے۔
لیکن اب پٹرول و ڈیزل کے قیمتوں میں مسلسل اضافے کے ساتھ گاڑیوں کے کرائے بڑھ چکے ہیں اور ملک کے دوسرے لوگوں کی طرح روز بروز بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری نے سکھ طبقے کو بھی متاثری کیا ہے اور میتوں کی منتقلی کے دوران دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے تو اس لئے پشاور کی سکھ کمیونٹی ایک بار پھر اپنا دیرینہ مطالبہ کرتی ہے کہ ان کے لئے پشاور میں شمشان گھاٹ بنایا جائے۔
گزشتہ روز ہونے والے ٹرین حادثہ میں پشاور کی سکھ کمیونٹی کے 20 افراد جاں بحق ہوگئیں، ان کی میتوں کو اٹک تک لے جانا اور ان کے لئے کئی گاڑیوں کا قافلہ کا انتظام اور پھر راستہ بھر کی سیکیورٹی بے حد مشکل کام تھالیکن یہ سب صرف عوام کے تعاون سے ہی ممکن ھو سکا۔
گذشتہ 10 ماہ سے زائد عرصہ سے شمشان گھاٹ کا کیس زیر پشاور ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے، ہم عدالت سے اپیل کرتے ہیں کہ براہ کرم اس پر شنوائی کر کے پشاور کی سکھ برادری کو پشاور میں شمشان گھاٹ بنانے کے لئے سرکاری زمین دی جائے اور وہ 5 ارب روپے جو سکھ برادری کے لئے باہر ممالک میں مقیم ان کی برادری کی جانب سے بھیجے گئے ہیں ان پیسوں کو انہی پر لگایا جائے کیونکہ جو سرکار کی طرف سے اقلیتوں کے لئے 10 کروڑ روپے رکھے گئے تھے وہ تو پچھلے سال ھی واپس لے لئے گئے اور صوبائی حکومت اکاونٹ میں جمع ھو گئے ہیں۔
پشاور کی سکھ برادری کی دلی خواہش تھی کہ حالیہ حادثے کے شکار ہونے والے اپنے پیاروں کی آخری رسومات اپنے ہی شہر میں اسانی سے ادا کرتے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
ہمیں امید ہے کہ اعلی عدلیہ ھم لوگوں کو شمشان گھاٹ بنانے کے لئے جلد سے جلد اراضی و فنڈ مہیا کرنے کے احکامات جاری کرے گی کیونکہ 1973 کا آئین ملک میں مقیم تمام اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی کا حق دیتی ہے۔
ھم ایم پی اے جناب رنجیت سنگھ صاحب کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے اپنا فرض ادا کیا اور اسمبلی کے فلور پر اس گھمبیر مسئلے کو اٹھایا۔ صوبائی اسمبلی اور عدالت دونوں مل کر اقلیتوں کے لئے پچھلے مختص بجٹ کی بحالی پر زور دیں اور باقی اضلاع مین بھی جہاں سکھ اور ھندو برادری کو بھی شمشان گھاٹ کی ضرورت ہو وہاں اس کا قیام یقینی بنایا جائے.
رادیش سنگھ ٹونی چئیرمین مینارٹی رائٹس فورم پاکستان