خیبر پختونخوا، کرکٹ کے دو سٹیڈیمز کی لاگت دیگر تمام کھیلوں کے سالانہ بجٹ پر بھاری
ناہید جہانگیر
خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں کرکٹ کے صرف دو سٹیڈیمز کے لئے تقریباً ایک ارب 87 کروڑ مختص کئے گئے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پورے صوبے میں دیگر تمام کھیلوں کا سالانہ بجٹ صرف1 ارب 58 کروڑ روپے تجویز کیا گیا ہے۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی کرکٹ کو نہ صرف عوام سب سے زیادہ شوق سے کھیلتے اور دیکھتے ہیں بلکہ حکومت کی جانب سے بھی ہمیشہ سے کرکٹ کو سب سے زیادہ فوقیت دی جاتی ہے حتٰی کہ قومی کھیل ہاکی کو بھی نہ تو عوامی سطح پر اتنی پذیرائی حاصل ہے اور نہ حکومتی سطح پر۔
خیبرپختونخوا حکومت نے امسال بجٹ میں صوبے میں ہاکی سمیت تمام اولمپکس کھیلوں کے میدان آباد رکھنے، مختلف فورمز پر مقابلے منعقد کروانے اور ان کھیلوں کی ترویج کے لئے مجموعی طور پر 2 کروڑ 75 لاکھ روپے رکھے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پشاور میں ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کو بین الاقوامی لیول کا سٹیڈیم بنانے کے لئے خیبر پختونخوا کی جانب سے 2017 میں ایک ارب 37 کروڑ روپے مختص ہوئے یہ منصوبہ 3 سال میں مکمل ہونا تھا 3 سال پورے ہونے کو ہے لیکن اب بھی اس پر کام جاری ہے۔ منصوبے پر اب تک 44 کروڑ روپے خرچ کئے جاچکے ہیں اور رواں سال مزید 44 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
اس کے علاوہ حیات آباد سپورٹس کمپلکس میں بھی ایک کرکٹ سٹیڈیم بنانے کی تجویز دی گئی ہے اور صوبائی حکومت کی جانب سے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کی دوبارہ تعمیر اور بحالی پر کام جاری ہے جس پر 50 کروڑ روپے خرچہ آئے گا، یہ سٹیڈیم صوبائی حکومت اپنے طور پر بنائے گی۔
کرکٹ کھیل اتنا مقبول کیوں؟
دوسرے کھیلوں کے مقابلے میں کرکٹ کیوں زیادہ مقبول ہے اس حوالے سے ڈائریکٹر سپورٹس رحم بی بی جو 20 سال سے فرنٹیئر کالج برائے خواتین میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور خیبرپختونخوا کے لیے پی سی بی کی کوآرڈینیٹر بھی رہ چکی ہیں کا کہنا ہے کہ کرکٹ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں بڑے چھوٹے ہر عمر کے لوگ زیادہ دلچسپی لیتے اور اس سے لطف انداروز ہوتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک پیشہ ورانہ کھیل ہے، کافی سپانسرشپ اس کھیل کو ملتی ہے، اگر دیکھا جائےتو ایک ایونٹ سے ایک کھلاڑی لاکھوں روپے کماتا ہے۔
رحم بی بی کے مطابق کرکٹ کا دورانیہ زیادہ ہے۔ ایک روزہ میچ میں پورا دن جبکہ ٹیسٹ میچ میں 2 سے 5 دن تک کھیل کھیلا جاتا ہے جس سے نا صرف سب تماشائی لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ ملٹی نیشنل برانڈ اور بڑی بڑی کمپنیاں کرکٹ کو سپانسر کرتی ہیں کیونکہ ان کی دلچسپی بھی بزنس میں ہوتی ہے اور چاہتی ہیں کہ ان کے اشتہارات بھی 4 یا 5 دن چلیں تو ظاہر ہے اس کا فائدہ براہ راست کرکٹ کھیل کو پہنچتا ہے، بزنس کے لئے وہ کیوں 70 یا 90 منٹ کے کیھل کو ترجیح دیں گی۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا پر مسلسل پورا دن ایک کھیل کی نشریات خود بخود لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں جو کرکٹ کی مقبولیت میں اضافہ اور دیگر کھیلوں کو نظر انداز کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
رحم بی بی نے کہا کہ صوبے میں کافی اچھے اتھیلیٹ، والی بال یا ہاکی کھلاڑی موجود ہیں لیکن ان کو وہ مواقع یا اتنی سہولیات نہیں دی جاتیں جتنی کرکٹ کھلاڑیوں کو دی جاتی ہیں۔
کرکٹ میں سیاست کی بہت مداخلت ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ کھیل بھی اب کافی حد تک متاثر ہو رہا ہے، حکومت کی توجہ، سپانسرشپ، چھوٹے، جوانوں، بڑے بزرگ کا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہے۔ پہلے زمانے میں فلم سٹار بننا نوجوان نسل کی خواہش ہوتی تھی لیکن اب وہ جگہ کرکٹ سٹار نے لے لی ہے اور اب ہر کوئی کرکٹ سٹار بننا چاہتا ہے۔
رحم بی بی کے مطابق کرکٹ بورڈ کے پاس فنڈ بہت ہیں، بین الاقوامی دورے بہت ہوتے ہیں، کرکٹ ایونٹ بہت زیادہ منعقد ہوتے ہیں، شائقین بہت ہیں یہ ساری وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کرکٹ مشہور ہے اور اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
جو کھلاڑی ایک دو دوروں میں اچھا پرفارم کرتا ہے تو کوئی بھی پراڈکٹ اس کو اپنا ایمبیسڈر بنا دیتا ہے، بڑے بڑے پراڈکٹ کے لئے ایڈ (اشتہار) کرتے ہیں جبکہ دیگر کھیل ان سب سہولیات میں نذر انداز کئے جاتے ہیں۔
قومی کھیل ہاکی اپنا مقام کھو رہا ہے
پشاور کی انعم، جو 2 سالوں سے قومی سطح پر ٹینس کھیل رہی ہیں، نے کرکٹ کو ایک تماشائی کھیل قرار دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹ کے شوقین بہت زیادہ ہیں، اس کو عوام، میڈیا اور حکومت کی طرف سے کافی پروٹوکول اور اہمیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے کرکٹ دیگر کھیلوں پر بھاری ہے جبکہ ہاکی ایک قومی کھیل ہے لیکن عدم توجہی کی وجہ سے اپنا مقام روز بروز کھو رہا ہے۔
انعم نے کہا کہ اگر حکومت زیادہ توجہ دے اور سہولیات کے ساتھ ساتھ میڈیا کوریج بھی ملے تو اور کھیل بھی ترقی کرسکتے ہیں اور عوام میں مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔
زیادہ تر کھیل عدم توجہ سے غیر مقبول اور ختم ہوتے جا رہے ہیں پاکستان میں اہلیت کی کمی نہیں ہے، ہر کھیل میں قابل اور محنتی کھلاڑی موجود ہیں لیکن آسانیاں اور نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیل آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں، پاکستان کراٹے چیمپئن مراد خان نے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
پشاور شہر کے مراد خان، جو 2010 میں کراٹے کھیل سے منسلک ہوئے اور پھر 2011 میں قومی سطح پر کراٹے کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا، نے کہا کہ 2013 میں قومی کھیلوں میں گولڈ میدل جیتا جبکہ اس کے بعد بین الااقوامی کراٹے چیمپئن میں نیپال میں سری لنکا سے فائنل جیت کر گولڈ میڈل جیتا ہے جس پر ان کو کافی فخر ہے لیکن ساتھ میں ان کو دکھ یا گلہ بھی ہے کہ پاکستان میں اور کھیل نظر انداز ہونے کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول اور آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں کون سے کھیل مقبول تھے، اب کیوں نہیں
”پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کے لوگ کھیل کو میدان جنگ سمجھ کر دیکھتے ہیں کیونکہ یہ دشمن کے معاملے میں زیادہ جارحانہ طبیعت کے مالک ہیں، وہ چیز ان کو ہاکی یا کرکٹ میں نظر آتی تھی، ہاکی مختصر دورانیے کا کھیل ہے جسے بڑی بے رحمی سے نظرانداز کیا جا رہا ہے اور ساری توجہ کرکٹ پر مرکوز ہو گئی ہے، جب بھی بھارت پاکستان کرکٹ میچ کھیلا جاتا ہے تو اس میں تماشائی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور خاص کر کرکٹ کو کھیل کم جبکہ میدان جنگ زیادہ سمجھ کر دیکھا جاتا ہے”، پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی ذیشان انور نے بتایا۔
پشاور کے سپورٹس صحافی ذیشان انور نے کہا کہ سکواش میں پاکستان نے بہت نام کمایا، جہانگیرخان اور جان شیر خان، جو خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے تھے، نے لگاتار 555 میچ جیتے اور پھر 14 برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ جیت کر ایک بڑا ریکارڈ بنایا لیکن ان کی مقبولیت بھی اس لئے کم ہوئی کہ بھارت کے پاس سکواش ہے ہی نہیں، دوسری اہم وجہ سکواش ایک مہنگا کھیل ہے اس کا کورٹ اور سامان ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا نا ہی ہر جگہ آسانی کے ساتھ کھیلا جا سکتا ہے۔
ذیشان انور نے اور کھیلوں کی غیر مقبولیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فٹ بال میں اس خطے سے ہیروز نہیں ہیں، گھر کی چھت پر یا محلے میں آسانی سے نہیں کھیلا جا سکتا جس کی وجہ سے یہ کھیل آہستہ آہستہ متاثر ہو گیا، اسی طرح خیبر پختونخوا میں کبڈی اور نیزہ بازی مقامی مشہور کھیل ہوا کرتے تھے، جن کی جگہ اب کرکٹ نے لے لی ہے کیونکہ کھیل کی مقبولیت اور غیر مقبولیت میں آسانی سے کھیلے جانے کا بھی اہم رول ہے۔
کرکٹ رپورٹر ذیشان انور نے کہا کہ 1992 ورلڈ کرکٹ کپ جیتنے کے بعد خیبرپختونخوا میں اس کھیل نے بہت شہرت حاصل کی، پھر 2009 میں یونس خان کی قیادت میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ جیت کر اس مقبولیت میں اور اضافہ ہوا، اسی طرح شاہد خان آفریدی نے کرکٹ میں بہت نام کمایا جس کی وجہ سے اب یہاں کرکٹ مقبول جبکہ مقامی کھیل متاثر ہوئے ہیں۔
کرکٹ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ارباب نیاز سٹیڈیم 1984 میں تعمیر کیا گیا، اس پر صرف 7 ٹیسٹ اور 30 کے قریب ایک روزہ میچ ہو چکے ہیں۔ اب صوبائی حکومت کی جانب سے اس پر دوبارہ تعمیر کا کام 2019 میں شروع کیا گیا، اسے دبئی سٹیڈیم کے انداز میں تیار کیا جانا ہے، منصوبے کا کچھ حصہ سی اینڈ ڈبلیو جبکہ کرکٹ کا میدان پرائیویٹ کمپنی سے تیار کروایا جا رہا ہے، منصوبے پر مجموعی لاگت 1 ارب 70 کروڑ لاگت آنی ہے جس میں پہلے 14 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اب 35 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو گی، سٹیڈیم میں پہلی بار فلڈ لائٹس بھی لگائیں جائیں گے، منصوبے میں ہوٹل بلاکس پر 179 ملین کے اخراجات آئیں گے جبکہ پویلین بنانے پر 114 ملین اور الیکٹرانک بورڈ بنانے پر 90 ملین خرچ کئے جائیں گے، منصوبے پر آئی سی سی کے معیار کے مطابق 6 پیچز تیار کی جائیں گی جس کی نگرانی پی سی بی خود کرے گا، سینئر کرکٹ رپورٹر ذیشان انور نے کہا۔
دنیا بھر ہاکی سکرب نیلا، لیکن پشاور میں اب تک سبز کیوں؟
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے حنیف اللہ، جو 12 سالوں سے سپورٹس جرنلسٹ ہیں، کا کہنا ہے کہ قومی کھیل ہاکی عدم توجہ کی وجہ سے بدحالی کی طرف جا رہا ہے اور ہاکی فیڈریشن کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو غیرملکی دورے پر بھیج سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح سکواش یا اگر انڈور کھیلوں کی بات کی جائے تو سب کے سب حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ دنیا میں وقت کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی سہولیات میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں اگر قومی کھیل ہاکی سٹیڈیم کی بات کی جائے تو 2 ہی ایسے سٹیڈیم ہیں جو لاہور اور کراچی میں ہیں جن کی حالت تھوڑی بہت اچھی ہے لیکن پاکستان کے اور بڑے شہروں میں ابھی تک ہاکی سکرب بھی تبدیل نہیں کیا گیا ہے، دنیا میں اب ہاکی سکرب نیلے رنگ کا کیا گیا ہے جب کہ پشاور میں اب بھی سبز رنگ کا سکرب ہے اور ابھی تک تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔
حنیف اللہ کے مطابق دنیا میں سب سے مقبول کھیل فٹ بال ہے لیکن پاکستان میں بھی اس کھیل میں ابھی تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی، سابق صدر مشرف کے دور سے فٹ بال فیصل صالح حیات کے ہاتھوں میں رہا ہے لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ اب تک فٹ بال کے لئے کیا کیا ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہ ہو گا۔ دنیا میں فٹ بال کو کافی جگہ دینے کی وجہ سے یہ کھیل دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن پاکستان میں فٹبال کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھی زیادہ بجٹ فٹ بال کے لئے مختص کرے۔
ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس کے مینڈیٹ میں ہاکی سمیت تمام اولیمپکس گیمزشامل ہیں
خیبر پختونخوا کے سپورٹس ڈائریکٹر جنرل اسفندیار خٹک نے بتایا کہ کرکٹ پی سی بی دیکھتا ہے اور ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس کے مینڈیٹ میں ہاکی سمیت تمام اولیمپکس گیمزآتے ہیں، ان تمام گیمز کو سہولیات دینا، ان کے لئے کھیل کے میدان تعمیر کرنا یا بحالی پر خرچ کرنا ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس کی ذمہ داری ہے، لیکن ابھی وہ پشاور میں 1 ارب 37 کروڑ کی لاگت سے ارباب نیاز سٹیڈیم تعمیر کر رہے ہیں، اس کے علاوہ حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں ایک کرکٹ سٹیڈیم کے لئے اس سال 5 سو ملین بجٹ کا ایک پروجیکٹ تجویز کیا گیا ہے، اگر یہ منظور ہوتا ہے تو یہ کرکٹ سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن پر خرچ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ تقریباً 1 ارب اور 58 کروڑ تک متوقع ہے جو صوبے کے مختلف کھیلوں اور کھیل کے میدانوں پرخرچ کیا جائے گا۔ سپورٹس ڈائریکٹرجنرل اسفندیار خٹک نے کہا کہ ان کے حال ہی میں مختلف کھیلوں کے انڈر 21 گیمز تھے لیکن ابھی کوروناء وبا کی وجہ سے منسوخ ہو چکے ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل کے مطابق پشاور میں 2 بڑے کھیل کے میدان، ایک حیات آباد سپورٹس کمپلیکس اور دوسرا قیوم سپورٹس کمپلیکس، ہیں جن میں کھیلوں کے حوالے سے تمام سہولیات موجود ہیں۔
اس کے علاوہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم اور ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں، پشاور میں چھوٹے چھوٹے کھیل کے میدان بھی ہیں جو ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر یا ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس کے تحت آتے ہیں۔
اسفندیار خٹک نے کھیل کے میدانوں کی تعداد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 1000 سے زیادہ گراونڈ ہیں جن میں ہر ضلع میں ایک ایک کیٹیگری اے پلے گراونڈ ہے جبکہ ہر تحصیل میں ایک ایک کیٹیگری بی کھیل کا میدان ہے۔ پورے خیبر پختونخوا میں سکول لیول پر بھی سات الگ گراونڈز قائم کیے گئے ہیں۔ کیٹیگری اے اور بی کے علاوہ پورے صوبے میں چھوٹے چوٹے کھیل کے گراونڈ ہیں جن پر کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، بیڈمنٹن، ٹینس، سکواش اور والی بال وغیرہ کھیلا جاتا ہے۔
اسفندیار خٹک نے بجٹ کے حوالے سے بتایا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سٹڈیم کی تعمیر، بحالی، اور کھیلوں سے وابستہ تمام اخراجات اسی میں پورے کئے جاتے ہیں، پچھلے سال اس پروگرام کےتحت 2 اعشاریہ 1 بلین کا بجٹ ملا تھا جبکہ اس سال 1 اعشاریہ 58 بلین تک متوقع ہے۔