بلاگز

”سیاحت کے بدلے قبائلی روایات کا سودا نامنظور”

سی جے شمائلہ افریدی

کہتے ہیں وطن اور آزادی سے محبت ایمان کا حصہ ہے اور یہ محبت اور جذبہ حریت نہ صرف اشرف المخلوقات بلکہ جہان میں پائے جانے والی تمام مخلوقات کا خاصہ ہیں۔ ایک پرندے کو بھی اگر پنجرے میں قید کر کے اس کے آشیانے اور مسکن سے کسی دوسری جگہ لے جایا جائے تو اس کی حرکات اور سکنات سے اس کی بے چینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انسان تو پھر احساس و شعور اور سب سے زیادہ جذبات رکھنے والی مخلوقات میں شمار ہوتا ہے لہذا اپنے وطن سے اس کی محبت اس کی فطرت میں شامل ہے جس کا اظہار انسان وقتاً فوقتاً مختلف پیرایوں میں کرتا رہتا ہے۔

چونکہ انسان کی اپنے آبائی وطن سے محبت کا ایک خاص جذبہ ہوتا ہے چاہے وہ اس نے دیکھا بھی نہ ہو لیکن وہ مٹی جہاں سے اس کے آباؤاجداد کا تعلق ہوتا ہے اس کے لئے ایک خاص کشش کا باعث ہوتی ہے اور شعوری طور پر اس کے دل کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا آبائی علاقہ ہر قسم کی سہولیات، خوشحالی اور امن و امان کا گہوارہ ہو۔ اس کے لئے یہ قطعی طور پر ناقابل برداشت ہوتا ہے کہ ایک ایسا علاقہ جہاں اس نے اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا، جہاں اس نے جھولے میں جھولتے ہوئے اپنی ماں کی لوریاں سنی ہوں، جہاں کا گوشہ گوشہ اس کے لڑکپن کی شرارتوں کی یادوں سے بھرا ہوا ہو وہاں پر کوئی بے انصافی ہو، ظلم  کے ضابطے راٸج ہوں، جہاں بنیادی حقوق اور ضروریات کی دستیابی نہ ہو، جہاں لوگ مشکلات کی زندگی گزار رہے ہوں۔

اس کے ساتھ ساتھ اسے اس علاقے کے رسم و رواج، روایات، تہذیب و تمدن اور ثقافت سے بھی خصوصی لگاٶ ہوتا ہے اور یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی بھی ایسی سرگرمی یا طرزعمل کو برداشت نہیں کر سکتا جو اس کی روایات، تہذیب و تمدن، ثقافت اور نظام کے خلاف ہو۔ اور پھر قباٸلی معاشرہ اور تمدن تو اپنی پاٸیدار روایات اور اصولوں کی وجہ سے ایک خاص مقام کا حامل ہے، کسی بھی قباٸلی فرد میں دوسروں کی بہ نسبت روایت پسندی کا رجحان مزید شدت کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔

میرا تعلق بھی قباٸلی علاقے ایف آر پشاور بوڑہ سے ہے۔ بحیثیت اس معاشرے کے ایک فرد کے مجھے بھی اپنی روایات، ثقافت اور نظام بہت عزیز ہیں۔ ہمارے علاقے کی بھی کچھ مخصوص اور منفرد روایات جو صدیوں سے چلی آ رہی ہیں، فطری طور پر میرے لئے بھی یہ بات ناقابل برداشت ہو گی کہ کوئی ان روایات کو پامال کرے اور یہاں پر بے حیائی اور منفی جدت پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کرے۔ لہٰذا ایسا کوئی بھی عمل جو ہماری مخصوص روایات، معاشرت اور ثقافت کے لئے خطرہ ہو وہ میرے لئے ناقابل قبول ہو گا۔

روایات اور نظام کے حوالے سے ہی ایک مسئلہ اس وقت میرے علاقے بوڑہ جواکی ایف آر پشاور میں ایک گرما گرم موضوع بنا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ یہاں کے پہاڑ میں موجود پانی کا چشمہ ہے جو قبیلہ شیراخیل کے ملکیتی پہاڑ میں واقع ہے۔ اس مقام کے حوالے سے دو طبقات کے درمیان مباحثے ہو رہے ہیں۔ ایک طبقہ کے خیال میں اس مقام کو پبلک سیاحتی مقام کا درجہ دے کر یہاں سیاحت کو فروغ دیا جائے جس سے اس علاقے میں ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھل جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس طبقے کا تعلق اس علاقے سے نہیں ہے بلکہ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق محض اپنی تفریحات کے چکر میں ہیں۔

دوسرا طبقہ جو یہاں کے مقامی افراد پر مشتمل ہے، قطعی نہیں چاہتا کہ یہاں بیرونی افراد کی آمد سیاحت و تفریح کی غرض سے ہو۔ ہم ایک مہمان نواز قوم ہیں۔ مہمانوں کے لئے ہمارے دروازے دن رات کھلے ہیں لیکن سیر و تفریح کے حوالے سے کوئی بھی سرگرمی ناقابل قبول ہے۔

یہ چشمہ صدیوں سے موجود ہے لیکن ہمارے بزرگ ایک دوسرے کے فیصلوں کا احترام کرتے تھے۔ بوڑہ ایف آر پشاور کے آخری سنگت پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں بیرونی افراد کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہذا یہاں امن و امان کی ایک خاص فضا عرصہ دراز سے قائم ہے، خوبصورت اور آلودگی سے پاک پرسکون ماحول، مخصوص رسم ورواج، ایک ہی قبیلے کے لوگ غرض یہاں قومی یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا ہمیشہ سے برقرار رہی ہے۔

آفریدی و دیگر قباٸل کی سماجی زندگی میں عورت کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے علاقے میں بھی کھیتوں میں کام کرنا ہو، پہاڑ سے لکڑیاں یا پینے کا پانی لانا ہو عورت یہ تمام امور خوش اسلوبی سے سرانجام دیتی ہے۔ چونکہ ایک ہی برادری اور ایک ہی قبیلہ ہوتا ہے اس لئے ابتدا سے ہی پردے کا رواج اتنا زیادہ نہیں، اپنے علاقوں میں عموماً عورتیں برقعہ پہنے کے بجائے چادر اوڑھنے پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔

عورتوں کے کام کاج اور مشقت کی وجہ اگر ایک طرف سماجی رجحان ہے تو دوسری طرف اس رجحان کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس علاقے کے اکثریتی مرد حضرات اپنے کنبوں کی کفالت کی وجہ سے بیرون ملک ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ سے یہاں مجبوراً عورتوں کو ہی زیادہ تر کام کرنے پڑتے ہیں۔

اس پورے سماجی نظام کے پس پشت صرف ایک ہی چیز ہے وہ اس علاقے کا امن اور تحفظ کا احساس، اس علاقے میں موجود اکیلی عورت بھی اس قدر خود کو محفوظ تصور کرتی ہے جیسا کہ ایک فوجی اپنے قلعے کے اندر خود کو محفوظ تصور کرتا ہے، ہمارے بچے، مال مویشی سب اسی تحفظ کے احساس کے ساتھ آزادی کے ساتھ پھرتے رہتے ہیں۔

اب اگر یہاں سیاحتی مقام بنایا گیا، دیگر علاقوں سے افراد ہجوم در ہجوم یہاں آنے لگے تو کیا ہم تحفظ کا یہ احساس برقرار رکھ پائیں گے، کیا اس شور و غوغا اور بے ھنگم ٹریفک میں یہاں کا پرسکون اور صاف ستھرا ماحول برقرار رہ سکے گا، کیا اس طرح ہماری خواتین اپنی سماجی سرگرمیوں اور اپنے امور خانہ داری کو جاری رکھ سکیں گی، کیا ہمارے بچے ان خاموش سڑکوں کو پھر پار کر سکیں گے، کیا ہم اپنے مویشیوں کو آزادی کے ساتھ چرنے کے لئے چھوڑ سکیں گے؟ بالکل بھی نہیں، ہم ایسا نہیں کر سکیں گے۔

سب جانتے ہیں کہ اس پہاڑی مقام پر یہ چشمہ صرف بہار کے موسم میں جاری ہوتا ہے، چونکہ اس سال بارشیں زیادہ ہیں سو اس سال خلاف توقع یہ ابھی تک قلیل مقدار میں بہہ رہا ہے۔  کیا صرف دو مہینے بہنے والے آبشار کی سیاحت کی وجہ سے یہاں پورے سال کی سماجی اور معاشرتی سرگرمیوں کو متاثر کرنا مناسب ہو گا اور محض دو ماہ کے اس سودے سے ہم کتنا فائدہ اٹھا سکیں گے، یہاں کتنے پلازے اور ہوٹل تعمیر ہو جائیں گے، یہاں کتنے ہسپتال، سکول اور شفا خانے بن جائیں گے، کتنے کارخانے بن جائیں گے، کتنے لوگوں کو روزگار میسر آ جائے گا؟ مختصر بات یہ ہے کہ اگر سیاحت کے بدلے یہاں دودھ کی نہریں بھی بہنے لگیں تو بھی اس کے بدلے ہمیں اپنی روایات اور ثقافت کا سودا منظور نہیں۔

یہاں سیاحت کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ پورے علاقے کا انحصار اسی پانی پر ہے۔ یہیں سے پورے علاقے کو پینے کا پانی فراہم ہوتا ہے۔ اس علاقے میں بیرونی افراد کی آمد سے اس منبع اور پینے کے پانی کے حوالے سے بھی کئی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

لہذا ہمیں ایسی کوئی بھی ترقی یا سہولیات کی فراہمی ناقابل قبول ہے جس میں ہماری روایات اور ثقافت کی پامالی کا خدشہ ہو۔ حکومت اگر واقعی مخلص ہے تو یہاں ہسپتال، سکول اور دوسری بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے، رفاہ عامہ کے کاموں پر توجہ دے۔

ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق غیر افراد کے آبشار پر آنے کی وجہ سے لڑائیوں جھگڑوں، چوریوں، لوٹ مار میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ گاؤں کا صدیوں کا چین و سکون ختم ہو چکا ہے۔ امن کی فضا خراب ہو رہی ہے۔ ہماری روایات پامال ہو رہی ہیں۔

میں اپنے علاقے ایف آر جو کہ اب حسن خیل سب ڈویژن بن چکا ہے کی تمام اقوام سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنے آباواجداد کی روایات کی پاسداری کریں اور ایسی سرگرمیوں سے اجتناب کریں جن سے ہماری روایات کی پامالی ہوتی ہو یا سماجی اور معاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہو۔ ہمیں مل جل کر اپنی روایات، ثقافت اور طرز معاشرت کا دفاع کرنا پڑے گا۔

اس موقع پر ہمیں اپنی تمام قباٸلی رنجشوں کو ختم کرکے یکجہتی کی فضا قائم کرنا پڑے گی۔ ہماری روایات اور طرز معاشرت ہی ہماری پہچان ہیں اور جس دن یہ پہچان ہم سے چھن گئی اس دن کے بعد ہم ہمیشہ کے لئے گمنامی کے اندھیروں میں چلے جائیں گے۔

انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ قبائل کا موقف جان کر اپنی پالیسیاں بنائے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ حکومتی پالیسیاں جن کی وجہ سے سابقہ فاٹا کے قبائل کی روایات و ثقافت کو خطرات لاحق ہوں قبائل کے دلوں میں حکومت کے خلاف نفرت کے جذبات کا باعث بنیں اور وہ دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو فاٹا کو الگ کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیں کیونکہ ان کو یہ ہر گز منظور نہ ہوگا کہ ان کی ایسی پالیسیوں سے قبائل کی عزت آبرو، ثقافت، روایات اور رہن سہن کو عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button