کورونا وائرس نے امسال سحری میں ملنگ بابا کی آواز کو بھی خاموش کر دیا
سلمی جہانگیر
پوری دنیا میں آج کل کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی کے معاملات اس طرح نہیں رہے جس طرح پرانے وقتوں میں ہوا کرتے تھے۔ ہر بندہ اپنے گھر میں بیٹھا اور دنیا جہاں کے تمام مسائل سے بے خبر صرف اپنے آپ میں رہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔
میں بھی آج بیٹھی تھی، وہی رمضان کا مہینہ آج سے چند سال پہلے جب ہمارے گھر کے باہر رات کے اندھیرے میں ملنگ بابا کی صدا گونجتی تھی، بیٹھے بیٹھے ملنگ بابا کی آواز کانوں میں گونج آٹھی، ملنگ بابا وہ ہے ہر سال لوگوں کو اٹھانے کیلئے جس کی آواز کے ساتھ میں پلی بڑی ہوئی لیکن اس سال ملنگ بابا کی آواز کو کورونا وائرس کی وباء نے خاموش کر دیا۔
وہ آواز اب کے رمضان میں میرے کانوں میں نہیں گونجتی، لاک ڈاؤن نے ملنگ بابا کے ساتھ ساتھ اس کی آواز کو بھی قید کر لیا، ملنگ بابا کے گھنگھریالے بال، اس کی گھمبیر آواز۔ ”جاگتے رہو سحری کا وقت ہو چکا ہے” رات کے سناٹے کو چھیرتی ہوئی سوتے کانوں میں پہنچ کر لوگوں کو جگانے کے لیے کافی تھی۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو پرانے وقتوں میں رمضان کی آمد سے 15 دن پہلے لوگ رمضان کی تیاری شروع کر دیتے کہ سحری کے لیے کیا کیا کریں گے اور افطاری میں کون کون سے پکوان پکیں گے، کچھ لوگ رمضان کی آمد کے ساتھ الارم والی گھڑی بازار سے لے کر آتے تاکہ سحری کے لیے وقت پر اٹھا جا سکے۔
اس طرح کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سحری اٹھانے کے لیے موبائل کافی ہے کیونکہ موبائل کو الارم پر لگایا ہوتا ہے، بعض لوگ افطاری کے بعد اپنے ابو بھائی کے ساتھ گھومنے باہر جاتے اور خود بھی دوستوں کے ساتھ باہر جاتے اور واپسی پر سحری کے لیے رنگ رنگ کے کھانے، مربے، چاٹ، دہی، ملائی اور دودھ وغیرہ لے کر آتے۔
نان بھی سحری کے وقت لے کر آتے تھے لیکن اس دفعہ رمضان میں ان ساری چیزوں پر پابندی کورونا وائرس کی وباؤ کی وجہ سے لگی ہے کیونکہ یہ جان لیوا بیماری ہے پاکستان سمیت پوری دنیا کے ممالک کو جس نے اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے۔
رمضان کے بعد تمام خواتین شاپنگ کے لیے بازاروں کا رخ کرتی تھیں، رات کو بازاروں میں ایسی رونق لگی ہوتی تھی اور ایسا رش ہوتا کہ جیسے پہلی بار کپڑے اور جوتے خرید رہے ہیں، لیکن ان سب باتوں کو دیکھیں تو ان میں مثبت بات یہ ہے کہ قدرت ہر چیز کے ساتھ انصاف کرتی ہے، اس طرح اللہ نے اس فضا کو آلودگی سے پاک رکھنے کا ایک ذریعہ اس وائرس کو بنا دیا ہے، پہلے جہاں رش ہوتا تھا اب وہاں پر سکون ہی سکون ہے۔
اس سال اپریل کی نسبت اگر پچھلے سال اپریل کو دیکھا جائے تو انتہائی گرمی تھی اب جب کہ کورونا وائرس کی وباء کے پھیلنے کا خطرہ ہیں تو تمام لوگ اپنے گھروں میں ہیں، لاک ڈاون ہے تو فضا خاموش اور صاف ستھری ہو گئی ہے۔