بوجھو تو جانیں: ‘میں نے دیکھا ایک شیطان ناک پے بیٹھا پکڑے کان’
رانی عندلیب
وقت گزرتا جا رہا ہے اور اپنے پیچھے یادیں چھوڑے جا رہا ہے، وہی یادیں آہستہ آہستہ ماضی بن کر کہانی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں جس کو پھر ہم شاید کتابوں کے اوراق میں تلاش کریں گے۔ بچپن میں گھر کے آنگن میں کھیل کود کے علاوہ رات کو اپنی دادی اور امی جان سے کہانی سننا بھی ایک اہم مشغلہ ہوا کرتا تھا۔
آج کل مگر بچوں سے کہانیوں کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ ایسے حیران حیران بندے کا منہ تکنے لگتے ہیں جیسے کہانی کا نہیں کسی عجوبے کے بارے میں پوچھ لیا ہو، وہ قصے کہانیوں کے بارے میں جانتے ہیں نہ ہی اس سے باخبر ہیں اور نہ ہی وہ قصے کہانیوں میں رتی برابر دلچسپی لیتے ہیں۔ جب قصے کہانیوں کا یہ حال ہے تو پہلیوں کی تو بات ہی نہ کریں۔
کچھ دن پہلے اپنے بھتیجے سے پوچھا کہ آپ کہانی کے بارے میں جانتے ہو تو اْسے علم ہی نہیں تھا کہ کہانی کس بلا کا نام ہے۔
کہانی سنانے کا فن دنیا کے قدیم ترین فنون میں سے ایک ہے، اردو میں قصہ گوئی کی روایت بہت ہی قدیم ہے۔ پرانے زمانے میں قصے حکایتوں اور داستانوں کے ذیلی و ضمنی واقعات پر مشتمل ہوتے تھے۔
قصہ گوئی یا کہانی سنانے کا فن اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ۔ زمانہ قدیم میں قصہ گوئی کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ لوگ سورج غروب ہوتے ہی مختلف جگہوں یا گھروں پر اکٹھے ہوتے اور دن بھر کے واقعات کے علاوہ کچھ پرانی کہانیاں بھی سناتے، یہ وہ کہانیاں ہوتیں جو انہوں نے اپنے باپ دادا سے سن رکھی ہوتی تھیں۔ یوں یہ کہانیاں ایک کے بعد دوسری نسل کو منتقل ہوتیں ہم تک پہنچی ہیں۔
قصے کہانی سے متعلق انیسہ نامی خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی امی کی زبانی انہوں نے یہ سنا ہے کہ وہ جب چھوٹی تھی تو ان کے گاؤں میں ایک آدمی تھا جس کا نام حیدر بابا تھا۔ وہ رات کے وقت چراغ لے کر لوگوں کے گھر میں جا کر کہانی سناتے تھے، جب لوگ سو جاتے تو وہ چراغ ہاتھ میں لے کر دوسرے گھر جاتے۔
نورین اپنے بچپن کے حوالے سے کہتی ہے کہ وہ جب چھوٹی تھی تو رات کے وقت دادی امی سونے سے پہلے انھیں کہانیاں سنایا کرتی تھی، سردیوں کی ان طویل راتوں میں دادی جان کی کہانی کے ساتھ ساتھ حقے کی گڑ گڑ اور مخصوص تمباکو والے دھوئیں کی بو آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ ہم سب بچے دادی کے ساتھ رضائی میں بیٹھے ہوتے اور آہستہ آہستہ سو جاتے اور وہ کہانی آدھی رہ جاتی۔
پھر رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ ساتھ کہانیوں کی جگہ پہلیوں نے لے لی، لوگ تفریح کے لیے فارغ اوقات میں پہلیاں بجھواتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے جیسے
ایک گز کا طول کبھی کلی کبھی پھول (چھتری)
لوگ سوچ کر اس کا جواب دیتے،
ہرا آٹا لال پراٹھا (مہندی)
میں نے دیکھا ایک شیطان ناک پے بیٹھا پکڑے کان (عینک)
اور اس طرح کی لاتعداد پہلیاں لوگوں کی ذہنی آزمائش کا سبب بنتیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتیں آج شاید ناپید ہی ہو گئی ہیں۔