افغان حکومت نے 100 اہم طالبان قیدی رہا کر دیئے
افغان طالبان کی دھمکی کام دکھا گئی یا کابل انتظامیہ امن کے قیام کی متمنی ہے، اشرف غنی نے 100 اہم طالبان قیدی رہا کردیئے، ذرائع کے مطابق طالبان کی جانب سے مذکرات ختم کرنے کے اعلان کے اگلے ہی روز افغان حکومت نے 100طالبان قیدیوں کو رہا کردیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کے رکن جاوید فیصل کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے گذشتہ راز (بدھ) کو 100طالبان قیدی رہا کردیئے، رہائی کا فیصلہ قیدیوں کی صحت، عمر اور بقیہ سزا کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
طالبان کی جانب سے افغان حکومت پر قیدیوں کی رہائی میں ٹال مٹول سے کام لینے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے اور اس میں تاخیر کے باعث منگل کو طالبان نے افغان حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
واضح رہے کہ فروری میں 18 سال جنگ کے بعد رواں برس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے مابین امن معاہدے ہوا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق افغانستان میں القاعدہ اور داعش سمیت دیگر تنظیموں کے نیٹ ورک پر پابندی ہوگی، دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتیاں کرنے اور فنڈز اکٹھا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی جب کہ معاہدے کے تحت افغان حکومت نے 5 ہزار گرفتار طالبان کو رہا بھی کرنا تھا۔
دوسری جانب افغان طالبان نے ایک مرتبہ پھر افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ اسے بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کے لیے تمام 5000 قیدیوں کو رہا کرنا ہو گا۔
میڈیارپورٹس کے مطابق طالبان کے قطر میں قائم دوحہ آفس کے ترجمان سہیل شاہین نے بتایاکہ قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر سمجھ سے باہر ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق تمام قیدی رہا کیے جائیں۔ یہ رہائی بغیر کسی رکاوٹ اور مداخلت کے ہونی چاہیے۔انہوں نے واضح کیا کہ تمام 5000 قیدیوں کی رہائی امن معاہدے کی شق کا حصہ ہے اور اس کے بغیر بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کو کسی بھی تناظر میں بارگیننگ چپ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے جس کے ذریعے کچھ لو اور کچھ دوکی پالیسی پر عمل درآمد کیا جا سکے۔
ان کے مطابق قیدیوں کی رہائی ہی باہمی اعتماد کی فضا کو فروغ دے سکتی ہے اس طرح بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاافغان مذاکرات کے لیے تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کرنا ہی ماحول کو سازگار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاہم انہوں نے کابل حکومت کی جانب سے قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بتایا کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل دوحہ امن معاہدے میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی 50 تو کبھی 100 قیدی رہا کیے جائیں گے اور وہ بھی اپنی مرضی، شرائط اور خواہشات کے ساتھ تو اس سے امن معاہدے پر عمل درآمد میں مزید تاخیر ہو گی۔
سہیل شاہین کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے تشدد کے الزامات کا واحد حل ہی قیدیوں کی جلد از جلد رہائی ہے اور اس کے بعد سیز فائر اور آئندہ حکومتی ڈھانچے سے متعلق بات چیت بین الافغان مذاکرات میں ہونا ہے، یہ سب کچھ 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اپریل کو افغان طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔