بلاگز

‘کورونا سے کچھ ہو نہ ہو بھوک اور ادھار سے سانسیں ضرور بند ہو جائیں گی’

سی جے سدرہ

اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی شکل میں ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہے، وائرس نے اکثریت ممالک کو لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہر جگہ ایک کہرام مچا ہوا ہے۔

پاکستان بھی اس کورونا کی ہولناکیوں کی زد میں ہے اور یہ وائرس بہت تیزی کے ساتھ خوف کے پنجے گاڑ رہا ہے۔ ملک میں گزشتہ 15 دن سے جزوی لاک ڈاؤن ہے، حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن اگرچہ ایک طرف کورونا کی روک تھام کے لئے موثر ثابت ہو رہا ہے لیکن دوسری جانب اس کا اثر عوام پر  بہت برا پڑ رہا ہے۔

پاکستان میں اکثریت کم آمدنی والے اور دیہاڑی دار طبقے کی ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت متاثر ہو رہا ہے کیونکہ اپنی آمدنی سے نہ تو یہ لوگ مہینے بھر کا راشن خرید کر گھر میں آرام سے کھا سکتے ہیں اور نہ بغیر کام کے گھر رہ سکتے ہیں۔ نہ صرف دیہاڑی دار مزدوروں کا یہ حال ہے بلکہ ہر طبقہ اور باالخصوص ہوم بیسڈ ورکر خواتین کے پاس بھی کوئی کام نہیں ہے۔ ان دنوں ان کے پاس عید اور شادی کے سیزن کا بہت کام ہوتا تھا جس سے ان کا گزر بسر ہوتا تھا لیکن آج کل لوگ نہ تو کپڑے خریدتے نہیں تو سلوائیں گے کیا؟

 

گھروں میں سلائی کڑائی کا کام کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی میں پہلے ایسے مشکل حالات کبھی نہیں آئے تھے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے نہ ان کو کوئی کام ملا ہے اور نہ ہی ان کے گھر کے مرد دیہاڑی و مزدوری کے لئے باہر گئے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ کورونا وائرس سے کچھ ہو نہ ہو لیکن بھوک اور ادھار سے ان کی سانسیں ضرور بند ہوجائیں گی۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہ صرف معاشی مسائل سامنے آ رہے ہیں بلکہ سماجی مسئلوں نے بھی سر اٹھا لیا ہے اور گاہے بہ گاہے گھریلوں جھگڑوں میں اضافے کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے، بچوں کے سکول نہ جانے اور گھروں میں مقید ہونے کی وجہ سے والدین ذہنی تناؤ کا شکار ہوچکے ہیں، خصوصاً وہ مرد حضرت جن کے پاس نہ کام ہے اور نہ پیسہ اپنا غصہ خواتین پر نکال رہے ہیں اور ان پر ذہنی اور جسمانی تشدد کر تے ہیں۔

عوامی سرگرمیوں پر پابندی کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔ دیہی علاقوں میں جہاں کیبل، ٹی وی کی سہولیات نہیں وہاں تو لوگ کورونا کی تباہ کاریوں سے بھی بے خبر ہیں، لوگ حکومتی ہدایات و اقدامات پر عمل کرنے کے بجائے کورونا وائرس کے معاملے کو ہی سازش سمجھ رہے ہیں اور اکثر علاقوں میں کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ مساجد کو بند کرنے کی ایک سازش ہے، لوگوں میں اس سوچ کا پیدا ہونا ان میں شعور و اگاہی کی کمی کا ثبوت ہے۔

وائرس کی روک تھام کے لئے حکومت اقدامات اٹھا رہی ہے لیکن ابھی تک کئی اعلانات کے باوجود مزدوروں کے لئے کسی طرح کی کوئی پالیسی سامنے آئی نہیں عمل درآمد کہاں شروع ہوگا؟

وزیراعظم عمران خان نے غریب اور کم آمدنی والے طبقے کے لئے پیکج تو منظور کرلیا ہے لیکن حصول کا طریقہ کار آن لائن کرا کر اسے مشکل بنا دیا ہے۔ ایک تو ہماری عوام زیادہ پڑھی لکھی نہیں اور دوسرا یہ پیکج اس طبقہ کے لئے ہے جو دیہاڑی دار ہے اور ان کے پاس سادہ موبائل ہوتے ہیں جو کہ صرف کال ملانے اور سننے کے کام آتے ہیں، سمارٹ فون تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس طریقہ کار پر نظرثانی کرے اور اسے آسان بنائے۔

یہاں صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ وہ صاحب ثروت لوگ جن کو اللہ نے مال دیا ہے اور فلاحی ادارے، ان کو بھی چاہئے کہ اس مشکل گھڑی میں ٖغریبوں کی مدد کے لئے سامنے آئیں تاکہ کسی بھی گھر میں چولہا جلے بغیر رات نہ ہو اور بچے بھوکے نہ سو جائیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button