بچپن کا محرم، آج کا محرم؛ وقت کے ساتھ بدلتی روایتیں

سعدیہ بی بی
اسلامی تاریخ کا نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے، محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز اور ذوالحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے۔ لیکن اب منظر تو وہی ہیں، مگر ان میں پہلے جیسی جان نہیں ہر چیز میں ایک دھیمی سی تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔
جب ماضی کی گلیوں میں قدم رکھتی ہوں، تو آدھی صدی پرانا بچپن کا محرم میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ جہاں ہر تہوار گلی کی دیواروں سے لپٹا، اور ہر منظر دل کی دھڑکن بن جایا کرتا تھا۔ ہم محرم کے پانچ چھ دن اپنے ننہال میں گزارا کرتے تھے۔ وہاں جانے کے تصور و خیال سے ہی رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ اُس وقت چلنے والی بسوں میں سب سے پہلے سوار ہو کر کھڑکی والی نشست پر قبضہ کرتے تھے تاکہ راستے بھر باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ ڈرائیور خاص کر محرم کی نسبت سے ٹیپ ریکارڈر پر نوحے لگاتا تھا۔ جوں جوں منزل قریب آتی جاتی تھی جوش، ولولہ اور نندیال سے ملنے کی بے پایاں مسرت انگ انگ سے ٹپکتی دکھائی دیتی۔ راستے پر محرم الحرام کی نشانیاں جا بجا نظر آتی تھیں۔
گھر پہنچ کر بھاگم بھاگ نانی اماں اور دیگر رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد کھیل کود کے پروگرام بنتے تھے۔ سیکیورٹی یا چیکنگ کا تصور کم کم ہی تھا۔ نیاز وافر مقدار میں بٹتی تھی۔ عورتیں منتوں مرادوں کے لیے چھوٹے بچوں کو لاتی تھیں اور کھیر کے پیالے رکھنے اور اٹھانے کا رواج عام تھا۔ تقریبا ہر مسلک کے افراد ایسے موقع پر انتظامات اور دیگر کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ لڑائی جھگڑے وغیرہ کم ہی دیکھنے کو ملتے تھے۔ پورے دس دن ایک مخصوص ماتم، دکھ، سوگ اور روایتوں کے پاس کی فضا ہمیں گھیرے رکھتی اور باوجود بچے ہونے کے ہم عقیدت و احترام سے یہ گزارا کرتے۔
کربلا کی گرمی کی شدت اور مصائب کو ذاکر حضرات اپنے انداز میں امام بارگاہ میں بیان کر رہے ہوتے جس کی آواز پرانے دور کے سپیکروں سے گونجتی ہوئی سیدھی دل پر اثر کرتی تھی۔ بچپن کے محرم میں گلیوں کے کونے کونے پر سبیلیں لگی ہوتی تھیں۔ کہیں شربت، کہیں ٹھنڈا پانی، کہیں دودھ کی سبیل۔ چھوٹے بچے اپنے ہاتھ میں گلاس لیے قطار میں لگتے، اور سبیل پر موجود بڑے پیار سے کہتے: "بیٹا پہلے بسم اللہ پڑھو!” یہ سبیلیں صرف پیاس بجھانے کا ذریعہ نہیں تھیں، یہ محبت، خدمت اور عقیدت کا مظہر تھیں۔
ہم بڑے ہو گئے، مگر بچپن کا محرم آج بھی دل کی کسی پرانی کھڑکی سے جھانکتا ہے۔ آج بھی محرم آتا ہے، تقویم میں تاریخیں وہی ہیں، چاند بھی ویسا ہی نظر آتا ہے، لیکن دلوں کی حالت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ محرم اب محض رسم بنتا جا رہا ہے، جہاں بچپن میں ہر گلی نوحوں سے گونجتی تھی، آج وہاں شاید سناٹا زیادہ ہے یا شور تو ہے، مگر احساس کمزور ہو گیا ہے۔ بچپن میں شیعہ سنی کا فرق محسوس نہیں ہوتا تھا، سب محرم کو کسی نہ کسی انداز میں عقیدت سے مناتے تھے۔ آج دلوں میں دوریاں، شکوے، اور کبھی کبھی فرقہ واریت کی لکیریں نمایاں ہو گئی ہیں۔
آج کے محرم میں سبیلیں بہت کم ہوتی جا رہی ہیں۔ پہلے ہر گلی میں سبیل لگتی تھی، اب چند ایک جگہوں تک محدود ہو گئی ہیں۔ بچوں کی دلچسپی بھی کم ہو گئی ہے۔ نہ وہ ویسا شوق رکھتے ہیں، نہ ہی ان کے والدین انہیں ویسا ماحول دکھا پاتے ہیں۔ سبیلیں جو پہلے "پانی پلانے” کے ساتھ ساتھ "کربلا یاد دلانے” کا ذریعہ ہوتی تھیں، اب ان کا تصور دھندلا پڑ گیا ہے۔ پہلے محرم میں بچے صرف تازیے نہیں دیکھنے جاتے تھے، وہ سیکھنے جاتے تھے ظلم، سچائی، قربانی، صبر۔ آج وہ سبق کہیں سوشل میڈیا کے شور میں دب سا گیا ہے۔ جلوس پہلے اجتماع کا نشان تھے، اب کئی جگہوں پر رکاوٹ یا سیکیورٹی پلان کے عنوان سے دیکھا جانے لگا ہے۔ محرم کا جو احترام بچپن میں گھروں، محلوں، اور زبانوں پر ہوتا تھا، وہ اب صرف چند لوگوں تک محدود ہو گیا ہے۔
مگر پھر بھی، اگرچہ منظر بدلا جائے، دلوں میں کچھ شمعیں اب بھی جل رہی ہیں،کچھ آنکھیں آج بھی ویسے ہی اشکبار ہوتی ہیں، کچھ لوگ آج بھی محرم کو ویسا ہی احساس، ادب، اور اتحاد سے مناتے ہیں۔ فرق ضرور آیا ہے، مگر شاید یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس یاد کو، اس جذبے کو، اور اس محبت کو آنے والی نسلوں تک پھر سے ویسے ہی پہنچائیں جیسے بچپن میں ہمیں ملی تھی۔
آج ہمیں چاہیئے کہ ہم فرقہ واریت کی دیواریں گرا دیں، شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی جیسے ناموں سے اوپر اُٹھ کر ایک اُمّت کی طرح محرم کو پہلے کی طرح منائیں۔ محرم ہمیں سکھاتا ہے کہ نفرتوں کو ختم کر کے محبت، برداشت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے۔