عوام کی آواز

خیبر پختونخوا کے نجی اداروں میں کم سے کم اجرت کے قانون کی پاسداری کب ہوگی؟

آمنہ

خیبر پختونخوا میں نجی اداروں کے ملازمین حکومت کی مقرر کردہ تنخواہ اور مقررہ ڈیوٹی اوقات سے محروم ہیں۔ صوبائی حکومت نے نجی اداروں میں کم از کم تنخواہ 36 ہزار روپے اور روزانہ 8 گھنٹے ڈیوٹی کا تعین کیا ہے، تاہم حقیقت میں متعدد ادارے نہ صرف تنخواہ کم دیتے ہیں بلکہ کام بھی زیادہ لیتے ہیں۔

سکولز، شاپنگ مالز، ہوٹلز اور صنعتیں ان اداروں میں سرفہرست ہیں جہاں محنت کشوں کو ان کی محنت اور قابلیت کے مقابلے میں بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی ایسے افراد بھی شامل ہیں جو کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں، لیکن ان کی مالی حالت میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔

ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ معلمہ شازیہ (فرضی نام) گزشتہ پانچ ماہ سے ایک نجی سکول میں انگریزی پڑھا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں 18,500 روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے، جو مہنگائی کے اس دور میں انتہائی ناکافی ہے۔ شازیہ کا کہنا ہے کہ دیگر معلمات بھی اسی مسئلے کا شکار ہیں اور مالکان سے شکایت کے باوجود کوئی بہتری نہیں آتی۔ وہ کہتی ہیں، "میرے سکول کا فاصلہ میرے گھر سے زیادہ ہے، آتے جاتے وقت اور پیسے دونوں لگتے ہیں، جس سے اخراجات مزید بڑھ جاتے ہیں۔”

شازیہ کے مطابق کم تنخواہ نہ صرف ان کی روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ جذباتی دباؤ کا باعث بھی بن رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے مسائل پر کھل کر بات کرنی چاہیئے، کیونکہ یہ صرف میری نہیں، بلکہ ہر محنت کش کی آواز ہے۔

پشاور ہی سے تعلق رکھنے والی 32 سالہ عظمیٰ (فرضی نام) ایک شاپنگ مال میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کی ذمہ داری گاہکوں کو اشیاء کی قیمتیں بتانا اور مال کی نگرانی کرنا ہے۔ وہ روزانہ صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک کھڑی ہو کر ڈیوٹی کرتی ہیں، لیکن انہیں محض 18 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ عظمیٰ بتاتی ہیں کہ شوہر کی بھی کم آمدنی ہے اور دونوں کی تنخواہیں ملا کر بھی گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے۔

وہ کہتی ہیں، "ہم ایک کمرے کے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، تنخواہ کرایہ اور بلز ادا کرنے میں ختم ہو جاتی ہے، بچوں کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔” عظمیٰ کے مطابق ان کے بچے کی تعلیمی اخراجات ایک قریبی رشتہ دار اٹھا رہا ہے، کیونکہ وہ خود اخراجات برداشت نہیں کر سکتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کی مجبوری ہے، اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں۔

مزدوروں کے حقوق اور اجرت کے حوالے سے قانونی ماہر ایڈووکیٹ ہما مہمند کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں مینیمم ویجز ایکٹ 2013 نافذ ہے، جس کے مطابق تمام نجی ادارے ملازمین کو کم از کم 36 ہزار روپے تنخواہ دینے کے پابند ہیں۔ اس ایکٹ میں حالیہ بجٹ 2024-25 کے تحت ترمیم کی گئی ہے، جس میں 36 ہزار روپے کو باقاعدہ کم از کم تنخواہ قرار دیا گیا ہے۔

ہما مہمند کے مطابق اگر کوئی ادارہ قانون پر عمل نہیں کرتا تو ملازمین سٹیزن پورٹل پر جا کر شکایت درج کر سکتے ہیں۔ شکایت کی صورت میں لیبر انسپیکٹر متعلقہ ادارے کا معائنہ کرتا ہے اور اگر قانون کی خلاف ورزی پائی جائے تو لیبر کورٹ ادارے کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے وارنٹ جاری کر سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم تنخواہ کا قانون تمام نجی اداروں پر لاگو ہوتا ہے اور اس کا مقصد محنت کشوں کو معاشی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اگر حکومت خود تمام شہریوں کو سرکاری ملازمتیں فراہم نہیں کر سکتی تو کم از کم نجی اداروں کو قانون پر عملدرآمد کا پابند ضرور بنائے۔

ہما مہمند کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایسے اداروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیئے جو کم اجرت دے کر محنت کشوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، اجرت کا مسئلہ صرف تنخواہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ انسانی وقار، روزگار کا تحفظ اور سماجی انصاف سے بھی جڑا ہوا ہے۔

مقامی ماہرین اور عوامی حلقے بھی اس مسئلے کو سنجیدہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق، نجی ادارے اکثر ملازمین کو اس لیے بھی کم تنخواہ دیتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ لوگ بیروزگاری کے خوف سے خاموش رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ شازیہ اور عظمیٰ جیسی خواتین اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے باوجود مالی دباؤ کا شکار ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی مزدوروں کا تحفظ چاہتی ہے تو اس کے لیے مؤثر قانون سازی اور اس پر سختی سے عملدرآمد ضروری ہے۔ اجرت میں شفافیت اور انصاف ہی ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button