پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا فیصلہ، دہائیوں سے مقیم افراد کیلئے ذہنی و جذباتی آزمائش

رانی عندلیب
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے لیے مشکلات میں اس وقت اضافہ ہوا جب حکومت نے انہیں واپس افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اقدام نہ صرف ان کی روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے بلکہ کئی افراد کے لیے یہ فیصلہ ذہنی اور جذباتی دباؤ کا باعث بھی بن چکا ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں آباد ہیں۔
بخت پری جیسی افغان خاتون کی کہانی اس صورتحال کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ بخت پری 1980 کی دہائی میں افغانستان سے ہجرت کر کے پشاور آئی تھی اور زندگی کا بڑا حصہ یہی گزارا۔ ان کے والدین کی قبریں بھی پشاور میں موجود ہیں۔ ان کے لیے پاکستان صرف رہائش کی جگہ نہیں بلکہ ایک جذباتی، ثقافتی اور خاندانی وابستگی کا مرکز بن چکا ہے۔ افغانستان واپسی کا تصور اس کے لیے تکلیف دہ ہے۔
یہ مسئلہ صرف بخت پری تک محدود نہیں، بلکہ ہزاروں افغان پناہ گزینوں کے لیے ایک مشترکہ آزمائش ہے۔ چھٹا گل جیسے افراد، جنہوں نے پاکستان میں نئی زندگی کی بنیاد رکھی، اب خود کو بے وطن محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان نہ صرف رہائش بلکہ شناخت کا بھی حصہ بن چکا ہے۔
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد کی تاریخ 1979 سے جڑی ہے جب سوویت حملے کے بعد لاکھوں افغان شہریوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ ان پناہ گزینوں نے یہاں نہ صرف معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیا بلکہ مقامی زبان، ثقافت اور رسوم سے بھی ہم آہنگ ہو گئے۔ اب جب حکومت نے ان کی واپسی کا فیصلہ کیا ہے تو ان کے لیے یہ اقدام ایک کٹھن چیلنج بن گیا ہے۔
پشاور اور دیگر شہروں میں مقیم افغانوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ سمندر خان جیسے افراد کا کہنا ہے کہ افغانستان واپسی کا مطلب گھر اور کاروبار سے محرومی ہے، اور انہیں افغانستان میں کسی محفوظ مستقبل کی امید بھی نہیں۔
گلمین جیسے افراد، جن کی مادری زبان فارسی ہے، پشاور میں بچپن کی یادیں، دوستی اور زندگی کی کامیابیاں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ان کے لیے پشاور صرف ایک شہر نہیں بلکہ خوابوں کی تعبیر ہے۔
پناہ گزینوں کا سوال ہے کہ اگر وہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں تو پھر انہیں یہاں سے کیوں نکالا جا رہا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ "یہ زمین اللہ کی ہے، پھر ہمیں کیوں نکالا جا رہا ہے؟” یہ سوال انسانی جذبات اور سرحدوں سے بالاتر رشتوں کی عکاسی کرتا ہے۔
اس حکومتی فیصلے کے بعد افغان پناہ گزین بے یقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اگر انہیں پاکستان میں رہنے کی اجازت دی جائے تو وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں، بصورت دیگر ان کے لیے ہر دن ایک نیا سوال بن کر ابھرتا ہے۔
یہ مسئلہ صرف سرحدوں یا قانونی دستاویزات کا نہیں، بلکہ انسانیت، تعلق، اور شناخت کا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے وابستگی ایک ایسی کہانی ہے جس میں محبت، قربانی، اور انسانی اقدار سرحدوں سے بالاتر نظر آتی ہیں۔